سورة الفرقان آیات ۱ـ۹
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
With the name of Allah, the All-Merciful, the Very-Merciful
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾
بڑی برکت ہے اسکی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب [۱] اپنے بندہ پر [۲] تاکہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرانے والا [۳]
Glorious is the One who has revealed the Criterion to His servant, so that he may be a warner to all the worlds,
ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴿۲﴾
وہ کہ جس کی ہے سلطنت آسمان اور زمین میں اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا اور نہیں کوئی اس کا ساجھی سلطنت میں اور بنائی ہر چیز پھر ٹھیک کیا اسکو ماپ کر [۴]
the One to whom belongs the kingdom of the heavens and the earth, and who did neither have a son, nor is there any partner to him in the Kingdom, and who has created everything and designed it in a perfect measure.
وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾
اور لوگوں نے پکڑ رکھے ہیں اس سے ورے کتنے حاکم جو نہیں بناتے کچھ چیز اور وہ خود بنائے گئے ہیں اور نہیں مالک اپنے حق میں برے کے اور نہ بھلے کے اور نہیں مالک مرنے کے اور نہ جینے کے اور نہ جی اٹھنے کے [۵]
Yet they have adopted other gods, beside Him, who do not create any thing, as they themselves are created, and they possess no power to cause harm or benefit even to themselves, nor do they have any control over death or life or resurrection.
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۚ﴿ۛ۴﴾
اور کہنے لگے جو منکر ہیں اور کچھ نہیں ہے یہ مگر طوفان باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا ہے اس کا اس میں اور لوگوں نے [۶] سو آگئے بے انصافی اور جھوٹ پر [۷]
The disbelievers said, “This is nothing but a lie he (the messenger) has fabricated and some other people have helped him in it.” Thus they came up with sheer injustice and falsehood.
وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۵﴾
اور کہنے لگے یہ نقلیں ہیں پہلوں کی جنکو اس نے لکھ رکھا ہے سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس کے پاس صبح اور شام [۸]
And they said, “(These are) the tales of the ancients he (the messenger) has caused to be written, and they are read out to him at morn and eve.”
قُلۡ اَنۡزَلَہُ الَّذِیۡ یَعۡلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۶﴾
تو کہہ اسکو اتارا ہے اس نے جو جانتا ہے چھپے ہوئے بھید آسمانوں اور زمین میں [۹] بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے [۱۰]
Say, “It is sent down by the One who knows the secret in the heavens and the earth. Indeed He is Most-Forgiving, Very-Merciful.
وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾
اور کہنے لگے یہ کیسا رسول ہے کھاتا ہے کھانا اور پھرتا ہے بازاروں میں [۱۱] کیوں نہ اترا اسکی طرف کوئی فرشتہ کہ رہتا اس کے ساتھ ڈرانے کو
They said, “What sort of messenger is this who eats food and walks in the markets? Why is it that an angel has not been sent down to him who would have been a warner along with him.
اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاۡکُلُ مِنۡہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ﴿۸﴾
یا آ پڑتا اسکے پاس خزانہ یا ہو جاتا اس کے لئے ایک باغ کہ کھایا کرتا اس میں سے [۱۲] اور کہنے لگے بے انصاف تم پیروی کرتے ہو اس ایک مرد جادو مارے کی [۱۳]
Or a treasure should have been thrown down to him, or he should have a garden to eat from it?” And the transgressors said (to the believers,) “You are following none but a bewitched man.”
اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿٪۹﴾
دیکھ کیسی بٹھلاتےہیں تجھ پر مثلیں سو بہک گئے اب پا نہیں سکتے راستہ [۱۴]
See how they coined similes for you, so they have gone astray and cannot find a way.
[۱]قرآن فرقان ہے:
"فُرقان” (فیصلہ کی کتاب) قرآن کریم کو فرمایا جو حق و باطل کا آخری فیصلہ اور حرام و حلال کو کھلے طور پر ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ یہ ہی کتاب ہے جس نے اپنے اتارنے والے کی عظمت شان، علو صفات اور اعلیٰ درجہ کی حکمت و رافت کو انتہائی شکل میں پیش کیا اور تمام جہان کی ہدایت و اصلاح کا تکفل اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔
[۲]یعنی اپنے اس کامل و اکمل بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جن کا ممتاز لقب ہی کمال عبودیت کی وجہ سے “عبداللہ” ہو گیا۔ صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔
[۳]قرآن عالمین کیلئے نذیر ہے:
یعنی قرآن کریم سارے جہان کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے چونکہ سورت ہذا میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے شاید اسی لئے یہاں صفت “نذیر” کو بیان فرمایا۔ “بشیر” کا ذکر نہیں کیا۔ اور “للعالمین” کے لفظ سے بتلا دیا کہ یہ قرآن صرف عرب کے اُمیوں کے لئے نہیں اترا بلکہ تمام جن و انس کی ہدایت و اصلاح کے واسطے آیا ہے۔
[۴]تخلیق میں فطری موزونیت:
یعنی ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ اس سے وہ ہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لئے پید اکی گئ ہے۔ اپنے دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتی نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غرض ہر چیز کو ایسا ماپ تول کر پیدا فرمایا کہ اسی کی فطری موزونیت کے لحاظ سے ذرا کمی بیشی یا انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ بڑے بڑے سائنس داں حکمت کے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور آخرکار ان کو یہ ہی کہنا پڑتا ہے
صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ اور تَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ (المومنون۔۱۴)۔
[۵]مشرکین کا شرک غیر فطری ہے:
یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جِلانا ان کے قبضے میں ہے، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شئون کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اسکی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔
[۶]کفار کا قرآن پر بے سروپا اعتراض:
یعنی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ معاذ اللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کر لیا اور اس کو جھوٹ طوفان خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ان کے ساتھی لگے اس کی اشاعت کرنے بس کل حقیقت اتنی ہے۔
[۷]یعنی اس سے بڑھ کر ظلم اور جھوٹ کیا ہو گاکہ ایسے کلام معجز اور کتاب حکیم کو جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے، کذب و افتراء کہا جائے۔ کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جا سکتا ہے جس کے مقابلہ سے تمام دنیا کے فصیح و بلیغ عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لئے عاجز رہ جائیں اور جس کے علوم و معارف کی تھوڑی سے جھلک بڑے بڑے عالی دماغ عقلاء و حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کر دے۔
[۸]قرآن پر کفار کا ایک اور اعتراض:
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے کچھ قصے کہانیاں سن کر نوٹ کر لی ہیں یا کسی سے نوٹ کرا لی ہیں۔ وہ ہی شب و روز ان کے سامنے پڑھی اور رٹی جاتی ہیں۔ نئے نئے اسلوب سے ان ہی کا الٹ پھیر رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ “اول نماز کے دو وقت مقرر تھے صبح اور شام مسلمان حضرت کے پاس جمع ہوتے جو نیا قرآن اترا ہوتا لکھ لیتے یاد کرنے کو۔ اس کو کافر یوں کہنے لگے”۔
[۹]قرآن خود اپنی دلیل ہے:
یعنی کتاب خود بتلا رہی ہے کہ وہ کسی انسان یا کمیٹی کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ اس خدا کی اتاری ہوئی ہے جس کے احاط علمی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی۔ اس کلام کی معجزانہ فصاحت و بلاغت، علوم و معارف اخبار غیبیہ، احکام و قوانین اور وہ اسرار مکنونہ جنکی تہ تک بدون توفیق الہٰی کے عقل و افہام کی رسائی نہیں ہو سکتی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کسی محدود علم والے آدمی یا سازشی جماعت کا کلام نہیں۔
[۱۰]یعنی اپنی بخشش اور مہر سے ہی یہ قرآن اتارا (موضح القرآن) پھر جو لوگ ایسی روشن حقیقت کے منکر ہیں باوجود ان کے جرائم کا تفصیلی علم رکھنے کے فورًا سزا نہیں دیتا۔ یہ بھی اس کی بخشش اور مہر ہی کا پر تو ہے۔
[۱۱]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر کھانے پینے سے اعتراض:
یعنی جب ہماری طرح کھانا کھائے اور ہماری طرح خرید و فروخت کے لئے بازاروں میں جائے، تو ہم میں اس میں فرق کیا رہا۔ اگر واقعی رسول تھا تو چاہئے تھا کہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے اور طلب معاش کے بکھیڑوں سے فارغ ہوتا۔
[۱۲]نبوت پر کفار کے جاہلانہ شبہات:
یعنی اگر فرشتوں کی فوج نہیں تو کم ازکم خدا کا ایک آدھ فرشتہ ان کو سچا ثابت کرنے اور رعب جمانے کے لئے ساتھ رہتا جسے دیکھ کو خواہ مخواہ لوگوں کو جھکنا پڑتا۔ یہ کیا کہ کسمپرسی کی حالت میں اکیلے دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں۔ یا اگر فرشتے بھی ہمراہ نہ ہوں تو کم ازکم آسمان سے سونے چاندی کا کوئی غیبی خزانہ مل جاتا کہ لوگوں کو بیدریغ مال خرچ کر کے ہی اپنی طرف کھینچ لیا کرتے اور خیر یہ بھی نہ سہی، معمولی رئیسوں اور زمینداروں کی طرح انگور کھجور وغیرہ کا ایک باغ تو ان کی مِلک میں ہوتا جس سے دوسروں کو نہ دیتے تو کم ازکم خود بے فکری سے کھایا پیا کرتے جب اتنا بھی نہیں تو کس طرح یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عہد جلیلہ پر معاذ اللہ ایسی معمولی حیثیت کے آدمی کو مامور کیا ہے۔
[۱۳]یعنی میاں کی یہ پوزیشن اور اتنے اونچے دعوے؟ بجز اس کے کیا کہا جائے کہ عقل کھوئی گئ ہے یا کسی نے جادو کے زور سے دماغ مختل کر دیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔
(العیاذ باللہ)
[۱۴]کفار کی حیرانی اور ابدی گمراہی:
یعنی کبھی کہتے ہیں کہ ان کی باتیں محض مفتریات ہیں۔ کبھی دعویٰ کرتے ہیں کہ نہیں دوسروں سے سیکھ کر اپنے سانچے میں ڈھال لی ہیں۔ کبھی آپ کو مسحور بتلاتے ہیں کبھی ساحر، کبھی کاہن کبھی شاعر، کبھی مجنون، یہ اضطراب خود بتلاتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز آپ پر منطبق نہیں ہوتی۔ اسی لئے کسی ایک بات پر قرار نہیں۔ اور الزام لگانے کا کوئی راستہ ہاتھ نہیں آتا۔ جو لوگ انبیاء کی جناب میں اس طرح کی گستاخیاں کر کے گمراہ ہوتے ہیں ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی توقع نہیں۔