Surat Al-Furqān (The Criterian) – سورة الفرقان

سورة الفرقان آیات ۱ـ۹

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

With the name of Allah, the All-Merciful, the Very-Merciful

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾

بڑی برکت ہے اسکی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب [۱] اپنے بندہ پر [۲] تاکہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرانے والا [۳]

Glorious is the One who has revealed the Criterion to His servant, so that he may be a warner to all the worlds,

ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴿۲﴾

وہ کہ جس کی ہے سلطنت آسمان اور زمین میں اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا اور نہیں کوئی اس کا ساجھی سلطنت میں اور بنائی ہر چیز پھر ٹھیک کیا اسکو ماپ کر [۴]

the One to whom belongs the kingdom of the heavens and the earth, and who did neither have a son, nor is there any partner to him in the Kingdom, and who has created everything and designed it in a perfect measure.

وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ﴿۳﴾

اور لوگوں نے پکڑ رکھے ہیں اس سے ورے کتنے حاکم جو نہیں بناتے کچھ چیز اور وہ خود بنائے گئے ہیں اور نہیں مالک اپنے حق میں برے کے اور نہ بھلے کے اور نہیں مالک مرنے کے اور نہ جینے کے اور نہ جی اٹھنے کے [۵]

Yet they have adopted other gods, beside Him, who do not create any thing, as they themselves are created, and they possess no power to cause harm or benefit even to themselves, nor do they have any control over death or life or resurrection.

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا ۚ﴿ۛ۴﴾

اور کہنے لگے جو منکر ہیں اور کچھ نہیں ہے یہ مگر طوفان باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا ہے اس کا اس میں اور لوگوں نے [۶] سو آگئے بے انصافی اور جھوٹ پر [۷]

The disbelievers said, “This is nothing but a lie he (the messenger) has fabricated and some other people have helped him in it.” Thus they came up with sheer injustice and falsehood.

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۵﴾

اور کہنے لگے یہ نقلیں ہیں پہلوں کی جنکو اس نے لکھ رکھا ہے سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس کے پاس صبح اور شام [۸]

And they said, “(These are) the tales of the ancients he (the messenger) has caused to be written, and they are read out to him at morn and eve.”

قُلۡ اَنۡزَلَہُ الَّذِیۡ یَعۡلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۶﴾

تو کہہ اسکو اتارا ہے اس نے جو جانتا ہے چھپے ہوئے بھید آسمانوں اور زمین میں [۹] بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے [۱۰]

Say, “It is sent down by the One who knows the secret in the heavens and the earth. Indeed He is Most-Forgiving, Very-Merciful.

وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾

اور کہنے لگے یہ کیسا رسول ہے کھاتا ہے کھانا اور پھرتا ہے بازاروں میں [۱۱] کیوں نہ اترا اسکی طرف کوئی فرشتہ کہ رہتا اس کے ساتھ ڈرانے کو

They said, “What sort of messenger is this who eats food and walks in the markets? Why is it that an angel has not been sent down to him who would have been a warner along with him.

اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاۡکُلُ مِنۡہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ﴿۸﴾

یا آ پڑتا اسکے پاس خزانہ یا ہو جاتا اس کے لئے ایک باغ کہ کھایا کرتا اس میں سے [۱۲] اور کہنے لگے بے انصاف تم پیروی کرتے ہو اس ایک مرد جادو مارے کی [۱۳]

Or a treasure should have been thrown down to him, or he should have a garden to eat from it?” And the transgressors said (to the believers,) “You are following none but a bewitched man.”

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿٪۹﴾

دیکھ کیسی بٹھلاتےہیں تجھ پر مثلیں سو بہک گئے اب پا نہیں سکتے راستہ [۱۴]

See how they coined similes for you, so they have gone astray and cannot find a way.

[۱]قرآن فرقان ہے:
"فُرقان” (فیصلہ کی کتاب) قرآن کریم کو فرمایا جو حق و باطل کا آخری فیصلہ اور حرام و حلال کو کھلے طور پر ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ یہ ہی کتاب ہے جس نے اپنے اتارنے والے کی عظمت شان، علو صفات اور اعلیٰ درجہ کی حکمت و رافت کو انتہائی شکل میں پیش کیا اور تمام جہان کی ہدایت و اصلاح کا تکفل اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔

[۲]یعنی اپنے اس کامل و اکمل بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جن کا ممتاز لقب ہی کمال عبودیت کی وجہ سے “عبداللہ” ہو گیا۔ صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔

[۳]قرآن عالمین کیلئے نذیر ہے:
یعنی قرآن کریم سارے جہان کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے چونکہ سورت ہذا میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے شاید اسی لئے یہاں صفت “نذیر” کو بیان فرمایا۔ “بشیر” کا ذکر نہیں کیا۔ اور “للعالمین” کے لفظ سے بتلا دیا کہ یہ قرآن صرف عرب کے اُمیوں کے لئے نہیں اترا بلکہ تمام جن و انس کی ہدایت و اصلاح کے واسطے آیا ہے۔

[۴]تخلیق میں فطری موزونیت:

یعنی ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ اس سے وہ ہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لئے پید اکی گئ ہے۔ اپنے دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتی نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غرض ہر چیز کو ایسا ماپ تول کر پیدا فرمایا کہ اسی کی فطری موزونیت کے لحاظ سے ذرا کمی بیشی یا انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ بڑے بڑے سائنس داں حکمت کے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور آخرکار ان کو یہ ہی کہنا پڑتا ہے
صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ اور تَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ (المومنون۔۱۴)۔

[۵]مشرکین کا شرک غیر فطری ہے:
یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جِلانا ان کے قبضے میں ہے، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شئون کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اسکی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔

[۶]کفار کا قرآن پر بے سروپا اعتراض:

یعنی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ معاذ اللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کر لیا اور اس کو جھوٹ طوفان خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ان کے ساتھی لگے اس کی اشاعت کرنے بس کل حقیقت اتنی ہے۔

[۷]یعنی اس سے بڑھ کر ظلم اور جھوٹ کیا ہو گاکہ ایسے کلام معجز اور کتاب حکیم کو جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے، کذب و افتراء کہا جائے۔ کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جا سکتا ہے جس کے مقابلہ سے تمام دنیا کے فصیح و بلیغ عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لئے عاجز رہ جائیں اور جس کے علوم و معارف کی تھوڑی سے جھلک بڑے بڑے عالی دماغ عقلاء و حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کر دے۔

[۸]قرآن پر کفار کا ایک اور اعتراض:
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے کچھ قصے کہانیاں سن کر نوٹ کر لی ہیں یا کسی سے نوٹ کرا لی ہیں۔ وہ ہی شب و روز ان کے سامنے پڑھی اور رٹی جاتی ہیں۔ نئے نئے اسلوب سے ان ہی کا الٹ پھیر رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ “اول نماز کے دو وقت مقرر تھے صبح اور شام مسلمان حضرت کے پاس جمع ہوتے جو نیا قرآن اترا ہوتا لکھ لیتے یاد کرنے کو۔ اس کو کافر یوں کہنے لگے”۔

[۹]قرآن خود اپنی دلیل ہے:

یعنی کتاب خود بتلا رہی ہے کہ وہ کسی انسان یا کمیٹی کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ اس خدا کی اتاری ہوئی ہے جس کے احاط علمی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی۔ اس کلام کی معجزانہ فصاحت و بلاغت، علوم و معارف اخبار غیبیہ، احکام و قوانین اور وہ اسرار مکنونہ جنکی تہ تک بدون توفیق الہٰی کے عقل و افہام کی رسائی نہیں ہو سکتی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کسی محدود علم والے آدمی یا سازشی جماعت کا کلام نہیں۔

[۱۰]یعنی اپنی بخشش اور مہر سے ہی یہ قرآن اتارا (موضح القرآن) پھر جو لوگ ایسی روشن حقیقت کے منکر ہیں باوجود ان کے جرائم کا تفصیلی علم رکھنے کے فورًا سزا نہیں دیتا۔ یہ بھی اس کی بخشش اور مہر ہی کا پر تو ہے۔

[۱۱]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر کھانے پینے سے اعتراض:

یعنی جب ہماری طرح کھانا کھائے اور ہماری طرح خرید و فروخت کے لئے بازاروں میں جائے، تو ہم میں اس میں فرق کیا رہا۔ اگر واقعی رسول تھا تو چاہئے تھا کہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے اور طلب معاش کے بکھیڑوں سے فارغ ہوتا۔

[۱۲]نبوت پر کفار کے جاہلانہ شبہات:
یعنی اگر فرشتوں کی فوج نہیں تو کم ازکم خدا کا ایک آدھ فرشتہ ان کو سچا ثابت کرنے اور رعب جمانے کے لئے ساتھ رہتا جسے دیکھ کو خواہ مخواہ لوگوں کو جھکنا پڑتا۔ یہ کیا کہ کسمپرسی کی حالت میں اکیلے دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں۔ یا اگر فرشتے بھی ہمراہ نہ ہوں تو کم ازکم آسمان سے سونے چاندی کا کوئی غیبی خزانہ مل جاتا کہ لوگوں کو بیدریغ مال خرچ کر کے ہی اپنی طرف کھینچ لیا کرتے اور خیر یہ بھی نہ سہی، معمولی رئیسوں اور زمینداروں کی طرح انگور کھجور وغیرہ کا ایک باغ تو ان کی مِلک میں ہوتا جس سے دوسروں کو نہ دیتے تو کم ازکم خود بے فکری سے کھایا پیا کرتے جب اتنا بھی نہیں تو کس طرح یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عہد جلیلہ پر معاذ اللہ ایسی معمولی حیثیت کے آدمی کو مامور کیا ہے۔

[۱۳]یعنی میاں کی یہ پوزیشن اور اتنے اونچے دعوے؟ بجز اس کے کیا کہا جائے کہ عقل کھوئی گئ ہے یا کسی نے جادو کے زور سے دماغ مختل کر دیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔
(العیاذ باللہ)

[۱۴]کفار کی حیرانی اور ابدی گمراہی:
یعنی کبھی کہتے ہیں کہ ان کی باتیں محض مفتریات ہیں۔ کبھی دعویٰ کرتے ہیں کہ نہیں دوسروں سے سیکھ کر اپنے سانچے میں ڈھال لی ہیں۔ کبھی آپ کو مسحور بتلاتے ہیں کبھی ساحر، کبھی کاہن کبھی شاعر، کبھی مجنون، یہ اضطراب خود بتلاتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز آپ پر منطبق نہیں ہوتی۔ اسی لئے کسی ایک بات پر قرار نہیں۔ اور الزام لگانے کا کوئی راستہ ہاتھ نہیں آتا۔ جو لوگ انبیاء کی جناب میں اس طرح کی گستاخیاں کر کے گمراہ ہوتے ہیں ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی توقع نہیں۔

شائع کردہ از سورة الفرقان | تبصرہ کریں

سُوْرَةُ الْفُرْقَان

نام :
پہلی ہی آیت تَبَاَرَکَ الَّذِیْ نَزَّ لَ الْفُرْقَانَ سے ماخوذ ہے ۔ یہ بھی قرآن کی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے نہ کہ عنوان مضمون کے طور پر ۔ تاہم مضمون سورہ کے ساتھ یہ نام ایک قریبی مناسبت رکھتا ہے جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔

زمانۂ نزول :

انداز بیان اور مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانہ نزول بھی وہی ہے جو سورہ مومنون وغیرہ کا ہے ، یعنی زمانہ قیام مکہ کا دور متوسط۔ ابن جریر اور امام رازی نے ضحاک بن مزاجِ اور مقاتل بن سلیمان کی یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت سورہ نساء سے 8 سال پہلے اتری تھی۔ اس حساب سے بھی اس کا زمانہ نزول وہی دور متوسط قرار پاتا ہے ۔ (ابن جریر، جلد 19، صفحہ 28 ۔30 ۔ تفسیر کبیر ، جلد 6 ، صفحہ 358 )

۔
موضوع و مباحث :

اس میں ان شبہات و اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ، اور آپ کی پیش کر دہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ ان میں سے ایک ایک کا جچا تلا جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دعوت حق سے منہ موڑنے کے برے نتائج بھی صاف صاف بتائے گئے ہیں ۔ آخر میں سورہ مومنون کی طرح اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لو ، کون کھوٹا ہے اور کون کھرا۔ ایک طرف اس سیرت و کردار کے لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم سے اب تک تیار ہوئے ہیں اور آئندہ تیار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف وہ نمونہ اخلاق ہے جو عم اہل عرب میں پایا جاتا ہے اور جسے بر قرار رکھنے کے لیے جاہلیت کے علمبردار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ اب خود فیصلہ کرو کہ ان دونوں نمونوں میں سے کے پسند کرتے ہو؟ یہ ایک غیر مفوکظ سوال تھا جو عرب کے ہر باشندے کے سامنے رکھ دیا گیا، اور چند سال کے اندر ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ساری قوم نے اس کا جو جواب دیا وہ جریدہ روز گار پر ثبت ہو چکا ہے ۔

شائع کردہ از سورة الفرقان | تبصرہ کریں

اللہ کا علم محیط

سورة النور آیات۶۲ـ۶۴

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۶۲﴾

ایمان والے وہ ہیں جو یقین لائے اللہ پر اور اسکے رسول پر اور جب ہوتے ہیں اس کے ساتھ کسی جمع ہونے کے کام میں تو چلے نہیں جاتے جب تک اس سے اجازت نہ لے لیں جو لوگ تجھ سے اجازت لیتے ہیں وہی ہیں جو مانتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو [۱۱۵] پھر جب اجازت مانگیں تجھ سے اپنے کسی کام کے لئے تو اجازت دے جس کو ان میں سے تو چاہے اور معافی مانگ انکے واسطے اللہ سے اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۱۱۶]

The believers are only those who believe in Allah and His messenger and who, when they are with him for a collective matter, do not leave unless they seek his permission. Surely, those who seek your permission are the ones who believe in Allah and His messenger. So, if they seek permission from you for some business of theirs, give permission to whom you wish from among them, and pray to Allah for their forgiveness. Surely, Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful.

لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾

مت کو لو بلانا رسول کا اپنے اندر برابر اسکے جو بلاتا ہے تم میں ایک دوسرے کو [۱۱۷] اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو تم میں سے جو سٹک جاتے ہیں آنکھ بچا کر [۱۱۸] سو ڈرتے رہیں وہ لوگ جو خلاف کرتے ہیں اس کے حکم کا اس سے کہ آپڑے ان پر کچھ خرابی یا پہنچے ان کو عذاب دردناک [۱۱۱۹]

Do not take the call of the messenger among you as a call of one of you to another. Allah definitely knows those of you who sneak out hiding themselves under the cover of others. So, those who violate his (messenger’s) order must beware, lest they are visited by a trial or they are visited by a painful punishment.

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ یَوۡمَ یُرۡجَعُوۡنَ اِلَیۡہِ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۶۴﴾

سنتے ہو اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں اور زمین میں اس کو معلوم ہے جس حال پر تم ہو اور جس دن پھیرےجائیں گے اس کی طرف تو بتائے گا ان کو جو کچھ انہوں نے کیا اور اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے [۱۲۰]

Remember! To Allah belongs all that is there in the heavens and the earth. He knows the condition in which you are at present; and the Day on which they will be returned to Him, He will tell them what they did. Allah is fully aware of everything.

[۱۱۵]صحابہ کرام کو اجازت دینے کا حکم:

اوپر کی آیتوں میں آنے کے وقت استیذان (اجازت طلب کرنے) کا ذکر تھا۔ یہاں جانے کے وقت استیذان کی ضرورت بتلائی ہے۔ یعنی پورے ایمان والے وہ ہیں جو رسول کے بلانے پر حاضر ہوتے ہیں اور جب کسی اجتماعی کام میں شریک ہوں مثلاً جمعہ، عیدین، جہاد اور مجلس مشاورت وغیرہ تو بدون اجازت کے اٹھ کر نہیں جاتے۔ یہ ہی لوگ ہیں جو کامل اور صحیح معنی میں اللہ اور رسول کو مانتے ہیں۔

[۱۱۶]یعنی غوروفکر کرنے کے بعد جس کو مناسب سمجھیں اجازت دیدیں۔ اور چونکہ اس اجازت پر عمل کرنا بھی فی الجملہ صحبت نبوی سے حرمان اور صورۃً تقدیم الدنیا علی الدین کا شائبہ اپنے اندر رکھتا ہے، اس لئے ان مخلصین کے حق میں استغفار فرمائیں۔ تاکہ آپ کے استغفار کی برکت سے اس نقص کا تدارک ہو سکے۔

[۱۱۷]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو بلانا:

یعنی حضرت کے بلانے پر حاضر ہونا فرض ہو جاتا ہے۔ آپ کا بلانا اوروں کی طرح نہیں کہ چاہے اس پر "لبیک” کہے یا نہ کہے۔ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے پر حاضر نہ ہو تو آپ کی بددعاء سے ڈرنا چاہئیے۔ کیونکہ آپ کی دعاء معمولی انسانوں جیسی نہیں۔

نیز مخاطبات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و عظمت کا پورا خیال رکھنا چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص ادب:

عام لوگوں کی طرح "یا محمد” وغیرہ کہہ کر خطاب نہ کیاجائے بلکہ "یانبی اللہ” اور یا "رسول اللہ” جیسے تعظیمی القاب سے پکارنا چاہئیے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "حضرت کے بلانے سے فرض ہوتا تھا حاضر ہونا جس کام کو بلائیں۔ پھر یہ بھی تھا کہ وہاں سے بے اجازت اٹھ کر چلے نہ جائیں۔ اب بھی سب مسلمانوں کو اپنے سرداروں کے ساتھ یہ برتاؤ کرنا چاہئیے۔

[۱۱۸]مجلس نبوی میں منافقین کا رویہ:

یہ منافقین تھے جن کو مجلس نبوی میں بیٹھنا اور پندو نصیحت سننا شاق گذرتا تھا وہ اکثر موقع پا کر اور آنکھ بچا کر مجلس سے بلا اجازت کھسک جاتے تھے۔ مثلاً کوئی مسلمان اجازت لے کر اٹھا، یہ بھی اس کی آڑ میں ہو کر ساتھ ساتھ چل دیے اس کو فرمایا کہ تم پیغمبر سے کیا چھپاتے ہو، خدا تعالیٰ کو تمہارا سب کا حال معلوم ہے۔

[۱۱۹]یعنی اللہ و رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر و نفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لئے جڑ نہ پکڑ جائے۔ اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(العیاذ باللہ)

[۱۲۰]اللہ کا علم محیط:
یعنی ممکن ہے مخلوق سے آنکھ بچا کر کوئی کام کر گزرو۔ لیکن حق تعالیٰ سے تمہارا کوئی حال پوشیدہ نہیں رہ سکتا نہ اس کی زمین و آسمان میں سے نکل کر کہیں بھاگ سکتے ہو۔ وہ جس طرح تمہارے احوال سے باخبر ہے ایسے ہی اس دن کی کیفیت مجازات سے بھی پورا آگاہ ہے۔ جب تمام مخلوق حساب و کتاب کے لئے اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور ہر ایک کے سامنے اس کا ذرہ ذرہ عمل کھول کر رکھ دیا جائے گا۔

ایسے علیم الکل اور مالک الکل کی سزا سے مجرم کس طرح اپنے کو بچا سکتا ہے۔

تم سورۃ النور بفضل اللہ تو تفیقہٖ، اللھم نور قلوبنا بالایمان والاحسان ونور قبورنا واتم لنا نورنا واغفرلنا انک علیٰ کل شیٔ قدیر و بالا جابتہ جدیر۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

معذوروں کیلئے احکام میں رعایت

سورة النور آیات۵۸ـ۶۱

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ وَ لَا عَلَیۡہِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَہُنَّ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ بَعۡضُکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۵۸﴾

اے ایمان والو اجازت لیکر آئیں تم سے جو تمہارےہاتھ کے مال ہیں [۱۰۶] اور جو کہ نہیں پہنچے تم میں عقل کی حد کو تین بار فجر کی نماز سے پہلے اور جب اتار رکھتے ہو اپنے کپڑے دوپہر میں اور عشاء کی نماز سے پیچھے یہ تین وقت بدن کھلنے کے ہیں تمہارے [۱۰۷] کچھ تنگی نہیں تم پر اور ان پر ان وقتوں کے پیچھے پھرا ہی کرتے ہو ایک دوسرے کے پاس [۱۰۸] یوں کھولتا ہے اللہ تمہارے آگے باتیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے

O you who believe, the slaves owned by you, and those of you who have not reached puberty, must seek your permission (to see you) at three times: before the prayer of Fajr, and when you take off your clothes at noon, and after the prayer of ‘Ishā’. These are three times of privacy for you. There is no harm, neither to you nor to them, after these (three times). They are your frequent visitors, as some of you are (frequent visitors) of the others. This is how Allah explains the verses to you. Allah is All-Knowing, All-Wise.

وَ اِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۵۹﴾

اور جب پہنچیں لڑکے تم میں کے عقل کی حد کو تو انکو ویسی ہی اجازت لینی چاہئے جیسے لیتے رہے ہیں ان سے اگلے [۱۰۹] یوں کھول کر سناتا ہے اللہ تم کو اپنی باتیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے

When the children from among you reach puberty, they must seek permission, as the permission is sought by those before them. This is how Allah explains His verses to you. Allah is All-Knowing, All-Wise.

وَ الۡقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَا یَرۡجُوۡنَ نِکَاحًا فَلَیۡسَ عَلَیۡہِنَّ جُنَاحٌ اَنۡ یَّضَعۡنَ ثِیَابَہُنَّ غَیۡرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیۡنَۃٍ ؕ وَ اَنۡ یَّسۡتَعۡفِفۡنَ خَیۡرٌ لَّہُنَّ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۶۰﴾

اور جو بیٹھ رہی ہیں گھروں میں تمہاری عورتوں میں سے جنکو توقع نہیں رہی نکاح کی ان پرگناہ نہیں کہ اتار رکھیں اپنے کپڑے یہ نہیں کہ دکھاتی پھریں اپنا سنگار اور اس سے بھی بچیں تو بہتر ہے انکے لئے [۱۱۰] اور اللہ سب باتیں سنتا جانتا ہے [۱۱۱]

And those old women who have no hope for marriage, there is no sin on them, if they take off their (extra) clothes while they do not display their adornment. Still, that they refrain (even from this) is better for them. Allah is All-Hearing, All-Knowing.

لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَعۡمَامِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ عَمّٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخۡوَالِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ خٰلٰتِکُمۡ اَوۡ مَا مَلَکۡتُمۡ مَّفَاتِحَہٗۤ اَوۡ صَدِیۡقِکُمۡ ؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا جَمِیۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا ؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿٪۶۱﴾

نہیں ہے اندھے پر کچھ تکلیف اور نہ لنگڑے پر تکلیف اور نہ بیمار پر تکلیف [۱۱۲] اور نہیں تکلیف تم لوگوں پر کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہن کے گھر سے یا اپنے چچا کے گھر سے یا اپنی پھوپھی کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالہ کے گھر سے یا جس گھر کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے [۱۱۳] نہیں گناہ تم پر کہ کھاؤ آپس میں مل کر یا جدا ہو کر پھر جب کبھی جانے لگو گھروں میں تو سلام کہو اپنے لوگوں پر نیک دعا ہے اللہ کے یہاں سے برکت والی ستھری یوں کھولتا ہے اللہ تمہارے آگے اپنی باتیں تاکہ تم سمجھ لو [۱۱۴]

There is no blame on a blind person, nor is there any blame on any lame one, nor is there any blame on a sick person, nor on yourselves in that you eat (something) from your own homes or from the homes of your fathers or the homes of your mothers or the homes of your brothers or the homes of your sisters or the homes of your paternal uncles, or the homes of your paternal aunts or the homes of your maternal uncles or the homes of your maternal aunts or from the places the keys of which you have under your control,16 or from (the home of) your friend.There is no sin on you if you eat together or separately. So when you enter homes, greet one another with Salām , a greeting prescribed by Allah, which is blessed, pleasant. This is how Allah explains the verses to you, so that you may understand.

[۱۰۶]اجازت لینے کا مسئلہ:
یعنی لونڈی غلام، چار رکوع پہلے مسئلہ استیذان (اجازت لینے) کا ذکر تھا۔ یہ اسی کا تتمہ ہے درمیان میں خاص خاص منابستوں سے دوسرے مضامیں آ گئے۔

[۱۰۷]ان تین وقتوں میں عمومًا زائد کپڑے اتار دیے جاتے ہیں یا سونے جاگنے کا لباس تبدیل کیا جاتا ہے اور بیوی کے ساتھ مخالطت بھی بیشتر ان ہی اوقات میں ہوتی ہے کبھی فجر سے قبل یا دوپہر کے وقت آدمی غسل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی مطلع نہ ہو۔ اس لئے حکم دیا کہ ان تین وقتوں میں نابالغ لڑکوں اور لونڈی غلام کو بھی اجازت لے کر آنا چاہئے۔ باقی وقتوں میں ان کو اجانب کی طرح اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں۔ الّا یہ کہ کوئی شخص اپنی مصلحت سے دوسرے اوقات میں بھی استیذان کی پابندی عائد کر دے۔

[۱۰۸]استیذان سے مستثنٰی اوقات:

یعنی اوقات مذکورہ بالا کو چھوڑ کر باقی جن اوقات میں عادۃً ایک دوسرے کے پاس بے روک ٹوک آتے جاتے ہیں ان میں نابالغ لڑکوں یا لونڈی غلام کو ہر مرتبہ اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایسا پابند کرنے میں بہت تنگی اور کاروبار کا تعطل ہے جو حق تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔

[۱۰۹]نابالغ لڑکوں کا حکم:

یعنی لڑکا جب تک نابالغ ہے تین وقتوں کے سوا باقی اوقات میں بلا اجازت لئے آ جا سکتا ہے۔ جس وقت حد بلوغ کو پہنچا پھر اس کا حکم ان ہی مردوں جیسا ہو گا جو اس سے پہلے بالغ ہو چکے ہیں۔ اور جن کا حکم پیشتر
آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا (النور۔۲۷) میں گذر چکا ہے۔

[۱۱۰]بوڑھی عورتوں کا پردہ:

حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں”یعنی بوڑھی عورتیں گھر میں تھوڑے کپڑوں میں رہیں تو درست ہے اور پورا پردہ رکھیں تو اور بہتر” اور گھر سے باہر نکلتے وقت بھی زائد کپڑے مثلاً برقع وغیرہ اتار دیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ بشرطیکہ اس زینت کا اظہار نہ ہو جس کے چھپانے کا حکم آیت وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ (النور۔۳۱) الخ میں دیا جا چکا ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جوان عورتوں کے تستر کے متعلق قرآن کریم کا منشاء کیا ہے۔

[۱۱۱]اللہ پردے کی باتیں بھی جانتا ہے:

یعنی یہ تو فتنہ کی روک تھام کے ظاہری انتظامات ہیں باقی پردہ کے اندر جو باتیں کی جاتی ہیں اور فتنے اٹھائے جاتے ہیں، یاد رہے کہ خدا تعالیٰ ان سب کو سنتا اور جانتا ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔

[۱۱۲]معذوروں کیلئے احکام میں رعایت:

یعنی جو کام تکلیف کے ہیں وہ ان کو معاف ہیں مثلاً جہاد، حج، جمعہ اور جماعت اور ایسی چیزیں۔ (کذا فی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ ان معذور و محتاج لوگوں کو تندرستوں کے ساتھ کھانے میں کچھ حرج نہیں۔ جاہلیت میں اس قسم کے محتاج و معذور آدمی اغنیاء اور تندرستوں کے ساتھ کھانے سے رکتے تھے انہیں خیال گزرتا تھا کہ شاید لوگوں کو ہمارے ساتھ کھانے سےنفرت ہو اور ہماری بعض حرکات و اوضاع سے ایذا پہنچتی ہو، اور واقعی بعضوں کو نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی۔

معذوروں کے ساتھ صحابہ کرام کا متقیانہ طریقہ: نیز بعض مومنین کو غایت اتقاء سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسے معذوروں اور مریضوں کے ساتھ کھانے میں شاید اصول عدل و مساوات قائم نہ رہ سکے۔ اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے لنگڑا ممکن ہے دیر میں پہنچے اور مناسب نشست سے نہ بیٹھ سکے۔ بیمار کا تو پوچھنا ہی کیا ہے اس بناء پر ساتھ کھلانے میں احتیاط کرتے تھے کہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔ دوسری ایک اور صورت پیش آتی تھی کہ یہ معذور و محتاج لوگ کسی کے پاس گئے، وہ شخص استطاعت نہ رکھتا تھا، ازراہ بے تکلفی ان کو اپنے بھائی، بہن، چچا، ماموں وغیرہ کسی عزیز وقریب کے گھر لے گیا۔ اس پر ان حاجمتندوں کو خیال ہوتا تھا کہ ہم تو آئے تھے اس کے پاس،یہ دوسرے کے ہاں لے گیا۔ کیا معلوم ہو ہمارے کھلانے سے کارِہ اور ناخوش تو نہیں۔ ان تمام خیالات کی اصلاح آیت حاضرہ میں کر دی گئ کہ خواہی نہ خواہی اس طرح کے اوہام و وساوس میں مت پڑو۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں وسعت دے رکھی ہے پھر تم خود اپنے اوپر تنگی کیوں کرتے ہو۔

[۱۱۳]یعنی تمہارے زیرتصرف دیدیا گیاہو ۔ مثلاً کسی نے اپنی چیز کا وکیل یا محافظ بنا دیا اور بقدر معروف اس میں سے کھانے پینے کی اجازت دے دی۔

[۱۱۴]گھر والوں کے ساتھ کھانے پینے کے آداب:

یعنی اپنائیت کےعلاقوں میں کھانے کی چیز کو ہر وقت پوچھنا ضرور نہیں۔ نہ کھانے والا حجاب کرے نہ گھر والا دریغ کرے۔ مگر عورت کاگھر اگر اس کے خاوند کا ہو۔ اس کی مرضی حاصل کرنی چاہئے۔ اور مل کر کھاؤ یا جدا یعنی اس کی تکرار دل میں نہ رکھے کہ کس نے کم کھایا کس نے زیادہ۔ سب نے مل کر پکایا سب نے مل کر کھایا۔ اور اگر ایک شخص کی مرضی نہ ہوتو پھر کسی کی چیز کھانی ہر گز درست نہیں۔ اور تقید فرمایا سلام کا آپس کی ملاقات میں۔ کیونکہ اس سے بہتر دعاء نہیں جو لوگ اس کو چھوڑ کر اور الفاظ گھڑتے ہیں اللہ کی تجویز سے ان کی تجویز بہتر نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ) آیت سے تنہا کھانے کا جواز بھی نکلا۔ بعض حضرات کو لکھا ہے کہ جب تک کوئی مہمان ساتھ نہ ہو کھانا نہ کھاتے تھے۔ معلوم ہوا یہ غلو ہے۔ البتہ اگر کئ کھانے والے ہوں اور اکھٹے بیٹھ کر کھائیں تو موجب برکت ہوتا ہے کما وردفی الحدیث۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

مومنین کا طریقہ

سورة النور آیات۵۱ـ۵۷

اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵۱﴾

ایمان والوں کی بات یہی تھی کہ جب بلائیے انکو اللہ اور رسول کی طرف فیصلہ کرنے کو ان میں تو کہیں ہم نے سن لیا اور حکم مان لیا اور وہ لوگ کہ انہی کا بھلا ہے [۹۸]

The only reply of the (true) believers, when they are summoned to Allah and His messenger that he (the messenger) may judge between them, is that they say, “We listen and obey.” Such people are the successful.

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَخۡشَ اللّٰہَ وَ یَتَّقۡہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۵۲﴾

اور جو کوئی حکم پر چلے اللہ کے اور اسکے رسول کے اور ڈرتا رہے اللہ سے اور بچکر چلے اس سے سو وہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے [۹۹]

Whoever obeys Allah and His messenger and has awe of Him and observes Taqwā for His sake, then such people are the victorious.

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَہُمۡ لَیَخۡرُجُنَّ ؕ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا ۚ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۵۳﴾

اور قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی اپنی تاکید کی قسمیں کہ اگر تو حکم کرےتو سب کچھ چھوڑ کر نکل جائیں تو کہہ قسمیں نہ کھاؤ حکمبرداری چاہئے جو دستور ہے البتہ اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو [۱۰۰]

And they (the hypocrites) swear by Allah on forceful oaths that if you (O prophet) order them, they will certainly leave (their homes for Jihād ). Say, “do not swear, (the reality of your) obedience is known. Indeed Allah is fully aware of what you do.”

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۵۴﴾

تو کہہ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا پھر اگر تم منہ پھیرو گے تو اس کا ذمہ ہے جو بوجھ اس پر رکھا اور تمہارا ذمہ ہے جو بوجھ تم پر رکھا اور اگر اس کا کہا مانو تو راہ پاؤ اور پیغام لانے والے کا ذمہ نہیں مگر پہنچا دینا کھول کر [۱۰۱]

Say, “Obey Allah and obey the messenger. But if you turn away, then on him (the messenger) lies (the responsibility of) what he is burdened with, and on you lies (the responsibility of) what you are burdened with. And if you obey him, you will get the right path. The duty of the Messenger is no more than to convey the message clearly.”

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾

وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کئے ہیں انہوں نے نیک کام البتہ پیچھے حاکم کر دے گا انکو ملک میں جیسا حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو اور جما دے گا ان کے لئے دین ان کا جو پسند کر دیا انکے واسطے اور دے گا ان کو ان کے ڈر کے بدلے میں امن میری بندگی کریں گے شریک نہ کریں گے میرا کسی کو [۱۰۲] اور جو کوئی ناشکری کرے گا اسکے پیچھے سو وہی لوگ ہیں نافرمان [۱۰۳]

Allah has promised those of you who believe and do good deeds that He will certainly make them (His) vicegerents in the land, as He made those before them, and will certainly establish for them their religion which He has chosen for them, and will certainly give them peace in place of fear in which they were before; (provided that) they worship Me, ascribing no partner to Me. And those who turn infidel after that are the transgressors.

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۶﴾

اور قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور حکم پر چلو رسول کے تاکہ تم پر رحم ہو [۱۰۴]

Establish Salāh and pay Zakāh and obey the messenger, so that you may be favored with mercy.

لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿٪۵۷﴾

نہ خیال کر کہ یہ جو کافر ہیں تھکا دیں گے بھاگ کر ملک میں اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے اور وہ بری جگہ ہے پھر جانے کی [۱۰۵]

Never think that the disbelievers are (able) to frustrate (Allah’s plan) on the earth. Their abode is the Fire. Indeed it is an evil terminus.

[۹۸]مومنین کا طریقہ:
یعنی سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی معاملہ میں ان کو خدا و رسول کی طرف بلایا جائے خواہ اس میں بظاہر ان کا نفع ہو یا نقصان۔ ایک منٹ کا توقف نہ کریں فی الفور "سمعًا و طاعۃً” کہہ کر حکم ماننے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اسی میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاح کا راز مضمر ہے۔

[۹۹]یعنی جو فی الحال فرمانبردار ہو، گذشتہ تقصیرات پر نادم ہو کر اور خدا سے ڈر کر توبہ کرے اور آئندہ برے راستہ سے بچ کر چلے، اسی کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

[۱۰۰]منافقوں کی جھوٹی قسمیں:

یعنی منافقین بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر آپ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم کو آپ حکم دیں تو سب گھر بار چھوڑ کر خدا کے راستہ میں نکل جانے کے لئے تیار ہیں ذرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرمائیں تو سب مال و دولت اللہ کے راستہ میں لٹا کر الگ ہو جائیں اس پر فرمایا کہ اس قدر منہ بھر کر لمبی چوڑی قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں۔تمہاری فرمانبرداری کی حقیقت سب معلوم ہو چکی کہ زبان سے دعوے بہت کیا کرتے ہو۔ اور عمل کا وقت آئے تو آہستہ سے کھسک جاتے ہو۔ چاہئے کہ سچے مسلمانوں کے دستور کے موافق حکمبرداری کر کے دکھاؤ زبانی قسمیں کھانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ فرض کرو تم قسمیں کھا کر بندوں کو اپنی بات کا یقین دلا دو لیکن اللہ کے آگے کسی کی چالاکی اور فریب نہیں چل سکتا۔ وہ تو تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں کی خبر رکھتا ہے۔ آگے چل کر تمہاری مکاری اور نفاق کا پردہ فاش کر دے گا۔

[۱۰۱]قبول حق کی ذمہ داری پوری کرو:

یعنی پیغمبر پر خدا کی طرف سے تبلیغ کا بوجھ رکھا گیا ہے، سو اس نے پوری طرح ادا کر دیا۔ اور تم پر جو بوجھ ڈالا گیا وہ تصدیق و قبول حق کا ہے، اور یہ کہ اس کے ارشاد کے موافق چلو۔ اگر تم اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے اس کے احکام کی تعمیل کرو گے تو کامیابی دارین کی راہ پاؤ گے اور دنیا و آخرت میں خوش رہو گے ورنہ پیغمبر کا کچھ نقصان نہیں۔ تمہاری شرارت و سرکشی کا خمیازہ تم کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ پیغمبر تو اپنا فرض ادا کر کے عنداللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکے۔ آگے اطاعت رسول کے بعض ثمرات بیان فرماتے ہیں جن کا سلسلہ دنیا ہی میں شروع ہو جائے گا۔

[۱۰۲]صحابہ کرام سے حکومت کا وعدہ:
یہ خطاب فرمایا حضرت کے وقت کے لوگوں کو یعنی جو ان میں اعلٰی درجہ کے نیک اور رسول کے کامل متبع ہیں رسول کے بعد ان کو زمین کی حکومت دے گا اور جو دین اسلام خدا کو پسند ہے ان کے ہاتھوں سے دنیا میں اس کو قائم کرے گا۔ گویا جیسا کہ لفظ استخلاف میں اشارہ ہے وہ لوگ محض دنیوی بادشاہوں کی طرح نہ ہوں گے۔ بلکہ پیغمبر کے جانشین ہو کر آسمانی بادشاہت کا اعلان کریں گے اور دین حق کی بنیادیں جمائیں گے اور خشکی و تری میں اس کا سکہ بٹھائیں گے۔

اس وقت مسلمانوں کو کفار کا خوف مرعوب نہ کرے گا۔ وہ کامل امن و اطمینان کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہیں گے اور دنیا میں امن وامان کا دور دورہ ہو گا۔ ان مقبول و معزز بندوں کی ممتاز شان یہ ہوگی کہ وہ خالص خدائے واحد کی بندگی کریں گے جس میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہ ہو گی۔ شرک جلی کا تو وہاں ذکر کیا ہے شرک خفی کی ہوا بھی ان کو نہ پہنچے گی۔ صرف ایک خدا کے غلام ہوں گے، اسی سے ڈریں گے اسی سے امید رکھیں گے۔اسی پر بھروسہ کریں گے اسی کی رضا میں ان کا جینا اور مرنا ہو گا۔

کسی دوسری ہستی کا خوف و ہراس ان کے پاس نہ پھٹکے گا۔ نہ کسی دوسرے کی خوشی نا خوشی کی پروا کریں گے۔ اس وعدے کا ایفاء: الحمد للہ کہ یہ وعدہ الہٰی چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر پورا ہوا۔ اور دنیا نے اس عظیم الشان پیشین گوئی کے ایک ایک حرف کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

خلفائے اربعہ کے بعد بھی کچھ بادشاہان اسلام وقتًا فوقتًا اس نمونہ کے آتے رہے اور جب اللہ چاہے گا آئندہ بھی آئیں گے۔

احادیث سے معلوم ہوا کہ آخری خلیفہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ ہوں گے جن کے متعلق عجیب و غریب بشارات سنائی گئ ہیں۔

وہ خدا کی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور خارق عادت جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے اسلام کا کلمہ بلند کریں گے۔ اَللّٰھُمَّ احْشُرْنَا فِیْ زُمْرَتہٖ وَارْزُقْنَاشھادۃ فی سَبِیْلِکَ اِنَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃ و ذُوالفَضْلِ العَظِیْم (تنبیہ) :

خلفائے اربعہ کی فضیلت

اس آیت استخلاف سے خلفائے اربعہ کی بڑی فضیلت و منقبت نکلتی ہے ابن کثیرؒ نے اس کے تحت عہد نبوت سے لیکر عہد عثمانی تک کی فتوحات کو درجہ بدرجہ بیان کیا ہے اور آخر میں یہ الفاظ لکھے ہیں

وَجُبِیَ الْخَرَاجُ مِنَ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ اِلٰی حَضْرۃِ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ عُثْمَانْ بِنْ عَفَانِ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ وَذٰلِکَ بِبَرْکَۃِ تِلَاوَتِہٖ وَدَرَاسَتِہٖ وَجَمْعہ الْاُمَّۃِ عَلٰی حِفْظِ الْقُرْاٰنِ وَلِہٰذَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِی الْاَرْضِ فَرَأیْتَ مَشَارِقِہَا وَمَغَارِبِہَا وَسَیَبْلُغُ مُلْکُ اُمَّتِی مَازُوِیَ لِی مِنْہَا فَہَا نَحْنُ نَتَقَلَّبُ فِیْمَا وَعَدْنَا اللّٰہُ وَرَسُولِہٖ۔ وَصَدَقَ اللّٰہ وَرَسُولُہ فَنَسْئَالَ اللّٰہ الْاِیْمَانَ بِہٖ وَبِرَسُولِہٖ وَالْقِیَامَ بِشُکْرِہٖ عَلٰی
الْوجْہِ الَّذِیْ یُرْضِیہ عَنَّا۔ ۔

[۱۰۳]یعنی ایسے انمامات عظیمہ کے بعد ناشکری کرنا بہت ہی بڑے نافرمان اور ہیکڑ مجرم کا کام ہے حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جو کوئی خلفائے اربعہ کی خلافت (اور ان کے فضل و شرف) سے منکر ہوا ان الفاظ سے اس کا حال سمجھا گیا۔

رَبَّنَا اغۡفِرۡلَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ۔

[۱۰۴]حصول رحمت کا طریقہ:

یعنی خدا کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو تو تم بھی ان ہی مقبول بندوں کی روش اختیار کرو۔ وہ روش یہ ہی ہے نمازیں قائم کرنا، زکوٰۃ دیتے رہنا اور تمام شعبہ زندگی میں رسول کے احکام پر چلنا۔

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا مَتَابَعَۃَ رَسُوْلِکَ ﷺ وَتَوَفَّنَا عَلَیْہِ وَالْحِقْنَا بِالصَّالِحِیْنَ ۔ اٰمین۔

[۱۰۵]کفار کا ٹھکانہ:

یہ نیک بندوں ے کے بالمقابل مردود و مغضوب لوگوں کا انجام بتلایا۔ یعنی جبکہ نیکوں کو ملک کی حکومت اور زمین کی خلافت عطا کیجاتی ہے ، کافروں اور بدکاروں کی ساری مکاریاں اور تدبیریں شکست ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر تمام خدائی میں ادھر ادھر بھاگتے پھریں تب بھی وہ خدائی سزا سے اپنے کو نہیں بچا سکتے۔ یقینًا ان کو جہنم کے جیل خانہ میں جانا پڑے گا۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

اللہ کی حکومت ہر شے پر حاوی ہے

سورة النور آیات۴۱ـ۵۰

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ ؕ کُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسۡبِیۡحَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۱﴾

کیا تو نہ نے دیکھا کہ اللہ کی یاد کرتے ہیں جو کوئی ہیں آسمان و زمین میں اور اڑتے جانور پر کھولے ہوئے [۷۹] ہر ایک نے جان رکھی ہے اپنی طرح کی بندگی اور یاد [۸۰] اور اللہ کو معلوم ہے جو کچھ کرتے ہیں [۸۱]

Did you not realize that purity of Allah is proclaimed by all those in the heavens and the earth, and by the birds with their wings spread out? Everyone knows one’s own (way of) praying (to Allah) and one’s own (way of) proclaiming Allah’s purity. And Allah knows well what they do.

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۴۲﴾

اور اللہ کی حکومت ہے آسمان اور زمین میں اور اللہ ہی تک پھر جانا ہے [۸۲]

To Allah belongs the Kingdom of the heavens and the earth, and towards Allah is the final return.

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَیُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَصۡرِفُہٗ عَنۡ مَّنۡ یَّشَآءُ ؕ یَکَادُ سَنَا بَرۡقِہٖ یَذۡہَبُ بِالۡاَبۡصَارِ ﴿ؕ۴۳﴾

تو نے نہ دیکھا اللہ ہانک لاتا ہے بادل کو پھر انکو ملا دیتا ہے پھر انکو رکھتا ہے تہ بر تہ پھر تو دیکھے مینہ نکلتا ہے اس کے بیچ سے [۸۳] اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے پھر وہ ڈالتا ہے جس پر چاہے اور بچا دیتا ہے جس سے چاہے [۸۴] ابھی اس کی بجلی کی کوند لیجائے آنکھوں کو [۸۵]

Do you not realize that Allah drives the clouds, then joins them together, then turns them into a heap? Then you see the rain coming out from their midst. He sends down from the sky mountains (of clouds) having hail in them, then He afflicts with it whomsoever He wills and turns it away from whomsoever He wills. The flash of its lightning seems to snatch away the eyes.

یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَعِبۡرَۃً لِّاُولِی الۡاَبۡصَارِ ﴿۴۴﴾

اللہ بدلتا ہے رات اور دن کو [۸۶] اس میں دھیان کرنے کی جگہ ہے آنکھ والوں کو [۸۷]

Allah alternates the night and the day. Surely, in that there is a lesson for those who have eyes to see.

وَ اللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی بَطۡنِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی رِجۡلَیۡنِ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰۤی اَرۡبَعٍ ؕ یَخۡلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۴۵﴾

اور اللہ نے بنایا ہر پھرنے والے کو ایک پانی سے [۸۸] پھر کوئی ہے کہ چلتا ہے اپنے پیٹ پر [۸۹] اور کوئی ہے کہ چلتا ہے دو پاؤں پر [۹۰] اور کوئی ہے کہ چلتا ہے چار پر [۹۱] بناتا ہے اللہ جو چاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کر سکتا ہے [۹۲]

Allah has created every moving creature from water. So, some of them move on their bellies; and some of them move on two legs, and some of them move on four. Allah creates what He wills. Surely, Allah is powerful over everything.

لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۴۶﴾

ہم نے اتاریں آیتیں کھول کھول کر بتلانے والی اور اللہ چلائے جس کو چاہے سیدھی راہ پر [۹۳]

We have surely sent down enlightening verses, and Allah guides whom He wills to the straight path.

وَ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالرَّسُوۡلِ وَ اَطَعۡنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِکَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۴۷﴾

اور لوگ کہتے ہیں ہم نے مانا اللہ کو اور رسول کو اور حکم میں آ گئے پھر پھر جاتا ہے ایک فرقہ ان میں سے اس کے پیچھے اور وہ لوگ نہیں ماننے والے [۹۴]

They say, “We have believed in Allah and in the messenger, and have adopted obedience”, then a group from them goes back after all this. Those are no believers.

وَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۴۸﴾

اور جب ان کو بلائیے اللہ اور رسول کی طرف کہ ان میں قضیہ چکائے تبھی ایک فرقہ کے لوگ ان میں منہ موڑتے ہیں

When they are summoned to Allah and His messenger that he (the messenger) may judge between them, in no time a group of them turns averse.

وَ اِنۡ یَّکُنۡ لَّہُمُ الۡحَقُّ یَاۡتُوۡۤا اِلَیۡہِ مُذۡعِنِیۡنَ ﴿ؕ۴۹﴾

اور اگر ان کو کچھ پہنچتا ہو تو چلے آئیں اس کی طرف قبول کر کر [۹۵]

And if the right is theirs, they would come to him as (if they are) submissive ones.

اَفِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ اَمِ ارۡتَابُوۡۤا اَمۡ یَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّحِیۡفَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ بَلۡ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿٪۵۰﴾

کیا انکے دلوں میں روگ ہے [۹۶] یا دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں یا ڈرتے ہیں کہ بے انصافی کرے گا ان پر اللہ اور اس کا رسول کچھ نہیں وہی لوگ بے انصاف ہیں [۹۷]

Is there a malady in their hearts or do they have doubt or do they fear that Allah and His messenger will do injustice to them? Rather they themselves are the unjust.

[۷۹]مخلوقات اور پرندوں کی تسبیح:

شاید اڑتے جانوروں کا علیحدہ ذکر اس لئے کیا کہ وہ اس وقت آسمان اور زمین کے بیچ میں معلق ہوتے ہیں اور ان کا اس طرح ہوا میں اڑتے رہنا قدرت کی بڑی نشانی ہے۔

[۸۰]یعنی حق تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اس کےحال کے مناسب جو طریقہ انابت و بندگی اور تسبیح خوانی کا الہام فرمایا اس کو سمجھ کر وہ اپنا وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے۔ لیکن افسوس و تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے انسان کہلانے والے غرور و غفلت اور ظلمت جہالت میں پھنس کر مالک حقیقی کی یاد اور ادائے وظیفہ عبودیت سے بے بہرہ ہیں (تنبیہ) مخلوقات کی تسبیح کے متعلق پندرہویں پارہ میں ربع کے قریب کچھ مضمون گذر چکا۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو تسبیح کی وصیت کی اور فرمایا
واِنَّہَا لِصَلٰوۃِ الْخَلْقِ (یہ ہی باقی مخلوق کی نماز ہے)۔

[۸۱]یعنی ان کی بندگی اورتسبیح کو خواہ تم نہ سمجھو، لیکن حق تعالیٰ کو سب معلوم ہے کہ کون کیا کرتا ہے۔

[۸۲]اللہ کی حکومت ہر شے پر حاوی ہے:

یعنی جیسے اس کا علم سب کو محیط ہے، اس کی حکومت بھی تمام علویات و سفلیات پر حاوی ہے اور سب کو آخر کار اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے آگے اپنے حاکمانہ اور قادرانہ تصرفات کو بیان فرماتے ہیں۔

[۸۳]بادلوں کے نظام میں اللہ کی نشانیاں:
یعنی ابتداء میں بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھتے ہیں پھر مل کر بڑا بادل بن جاتا ہے۔ پھر تہ پر تہ جما دی جاتی ہے۔

[۸۴]پہاڑ اور اولے:
یعنی جیسے زمین میں پتھروں کے پہاڑ ہیں، بعض سلف نے کہا کہ اسی طرح آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے اسی کے موافق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن زیادہ راجح اور قوی یہ ہے کہ "سماء” سے بادل مراد ہو۔ مطلب یہ ہے کہ بادلوں سے جو کثیف اور بھاری ہونے میں پہاڑوں کی طرح ہیں، اولے برساتا ہے جس سے بہتوں کو جانی یا مالی نقصان پہنچ جاتا ہے اور بہت سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ اولے کی چھال بیل کے ایک سینگ پر پڑتی ہے اور دوسرا سینگ خشک رہ جاتا ہے۔

[۸۵]برق کی چمک:
یعنی بجلی کی چمک اس قدر تیز ہوتی ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، قریب ہے کہ بینائی جاتی رہے۔

[۸۶]دن اور رات کی تبدیلی:

یعنی دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن اسی کی قدرت سے آتا ہے۔ وہ ہی کبھی رات کو کبھی دن کو گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے اور ان کی گرمی کو سردی سے، سردی کو گرمی سے تبدیل کرتا ہے۔

[۸۷]قدرت کے ان مظاہر کا مطالبہ:
یعنی چاہئے کہ قدرت کے ایسے عظیم الشان نشانات دیکھ کر آدمی بصیرت و عبرت حاصل کرے اور اس شہنشاہ حقیقی کی طرف سچے دل سے رجوع ہو جس کے قبضہ میں ان تمام تصرفات و تقلبات کی باگ ہے۔

[۸۸]اس کے لئے سترہویں پارہ کے تیسرے رکوع میں آیت وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ (الانبیاء۔۳۰) کا فائدہ دیکھنا چاہئے۔

[۸۹]جیسے سانپ اور مچھلی۔

[۹۰]جیسے آدمی اور طیور۔

[۹۱]جیسے گائے بھینس وغیرہ۔

[۹۲]یعنی کسی جانور کو چار سے زائد پاؤں دیے ہوں تو بعید نہیں، اس کی لامحدود قدرت و مشیت کو کوئی محصور نہیں کر سکتا۔

[۹۳]ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے:

یعنی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ تو اس قدر واضح ہیں کہ انہیں دیکھ کر اور سن کر چاہئے کہ کوئی آدمی نہ بہکے لیکن سیدھی راہ پر چلتا وہ ہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق دی ہو۔ لاکھوں آدمی یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھتے ہیں پر نتیجہ کے اعتبار سے ان کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے۔

[۹۴]منافقین کا بیان:
یہ منافقین کا ذکر ہے۔ وہ زبان سے دعویٰ ایمان و اطاعت کا کیا کرتے تھے اور جب عمل کا وقت آتا تو پھر جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں شروع سے ایمان و انقیاد موجود ہی نہ تھا۔ جو کچھ زبانی جمع خرچ تھا امتحان و ابتلاء کے وقت اس کی بھی قلعی کھل جاتی تھی۔

[۹۵]منافقین کی ہوا پرستی:

یعنی اگر ان کا جھگڑا کسی سے ہو گیا اور سمجھتے ہوں کہ ہم ناحق پر ہیں، اس وقت اگر دوسرا فریق کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چل کر اس معاملہ کو طے کرا لو تویہ منافق رضامند نہیں ہوتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً بلا رو رعایت حق کے موافق فیصلہ کریں گے جو ان کے مفاد کے خلاف پڑے گا۔ حالانکہ پہلے سے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ہم اللہ و رسول پر ایمان لانے اور ان کا حکم ماننے کو تیار ہیں۔ اب وہ دعویٰ کہاں گیا۔ ہاں فرض کیجئے اگر کسی معاملہ میں حق ان کی جانب ہو تو اس وقت بہت جلدی سے گردن جھکا کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہو جائیں اور فیصلہ کا انحصار حضور کی ذات مبارک پر کر دیں گے۔ کیونکہ سمجھتےہیں عدالت سے ہمارے موافق فیصلہ ہوگا ۔ تو یہ ایمان و اسلام کیا ہوا، محض ہوا پرستی ہوئی۔

[۹۶]روگ یہ کہ خدا و رسول کو سچ مانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں ۔ جیسے بیمار چاہتا ہے چلے اور پاؤں نہیں اٹھتا۔

[۹۷]یعنی خدا و رسول کی بابت کوئی دھوکہ لگا ہوا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یا اللہ کے وعد و وعید میں کوئی شک و شبہ ہے؟

یا یہ گمان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے معاملات کا خلاف انصاف فیصلہ کریں گے؟

اس لئے ان کی عدالت میں مقدمہ لیجانے سے کتراتے ہیں۔ سو یاد رکھو وہاں تو ظلم و بے انصافی کا احتمال ہی نہیں۔ ہاں خود ان ہی لوگوں نے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اپنا حق پورا وصول کر لیں اور دوسروں کو ایک پیسہ نہ دیں۔ اسی لئے ان معاملات کو خدائی عدالت میں لانے سےگھبراتے ہیں جن میں سمجھتے ہیں کہ رسول کا منصفانہ فیصلہ ہمارے مطلب کے خلاف ہو گا۔ یہ تو منافقین کا ذکر تھا آگے ان کے بالمقابل مخلصین کی اطاعت و فرمانبرداری کو بیان فرماتے ہیں۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

اللہ زمین و آسمان کا نور ہے

سورة النور آیات۳۵ـ۴۰

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾

اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی [۶۶] مثال اس کی روشنی کی جیسے ایک طاق اس میں ہو ایک چراغ وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشہ میں وہ شیشہ ہے جیسے ایک تارہ چمکتا ہوا تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت کے درخت کا وہ زیتون ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف قریب ہے اس کا تیل کہ روشن ہو جائے اگرچہ نہ لگی ہو اس میں آگ روشنی پر روشنی اللہ راہ دکھلا دیتا ہے اپنی روشنی کی جس کو چاہے اور بیان کرتا ہے اللہ مثالیں لوگوں کے واسطے اور اللہ سب چیز کو جانتا ہے [۶۷]

Allah is the Light of the heavens and the earth. The example of His light is that of a niche, in which there is a lamp; the lamp is in a glass – the glass looks like a brilliant star – it is lit by (the oil of) a blessed tree, the olive, which is neither eastern, nor western. Its oil is about to emit light even though the fire has not touched it – (it is) light upon light. Allah guides to His light whomsoever He wills; Allah describes examples for the people, and Allah knows everything well.

فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ۙ۳۶﴾

ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا انکو بلند کرنے کا [۶۸] اور و ہاں اس کا نام پڑھنے کا [۶۹] یاد کرتے ہیں اسکی وہاں صبح و شام [۷۰]

(The guided people worship Allah) in the houses that Allah has permitted to be raised, and where His name is recounted and His purity is pronounced, in the morning and in the evening,

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾

وہ مرد کہ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے اور نماز قائم رکھنے سے اور زکوٰۃ دینے سے [۷۱] ڈرتے رہتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں [۷۲]

by the men whom no trade or sale makes neglectful of the remembrance of Allah, nor from establishing Salāh and paying Zakāh ; they are fearful of a day in which the hearts and the eyes will be over-turned.

لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۸﴾

تاکہ بدلہ دے انکو اللہ انکے بہتر سے بہتر کاموں کا اور زیادتی دے انکو اپنے فضل سے [۷۳] اور اللہ روزی دیتا ہے جس کو چاہے بے شمار [۷۴]

The fate (of such people) is that Allah will reward them for the best deeds they did, and will give them more out of His grace. Allah gives whom He wills without counting.

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾

اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام جیسے ریت جنگل میں پیاسا جانے اس کو پانی یہاں تک کہ جب پہنچا اس پر اس کو کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس پھر اسکو پورا پہنچا دیا اس کا لکھا اور اللہ جلد لینے والا ہے حساب [۷۵]

As for those who disbelieve, their deeds are like a mirage in a desert plain, which a thirsty person deems to be water, until when he comes to it, he finds it nothing, and finds (the decree of) Allah with him, so He pays him his account in full. Allah is swift at reckoning.

اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾

یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھی آتی ہے اس پر ایک لہر اس پر ایک اور لہر اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک [۷۶] جب نکالے اپنا ہاتھ لگتا نہیں کہ اس کو وہ سوجھے [۷۷] اور جسکو اللہ نے نہ دی روشنی اسکے واسطے کہیں نہیں روشنی [۷۸]

Or (their deeds) are like layers of darkness in a vast deep sea overwhelmed by a wave, above which there is another wave, above which there are clouds – layers of darkness, one above the other. When one puts forth his hand, he can hardly see it; and the one to whom Allah does not give light can have no light at all.

[۶۶]اللہ زمین و آسمان کا نور ہے:

یعنی اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین و آسمان کو اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہو جائیں (موضح القرآن) سب مخلوق کو نور وجود اسی سے ملا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، فرشتے اور انبیاء و اولیاء میں جو ظاہری و باطنی روشنی ہے، اسی منبع النور سے مستفادہ ہے۔

ہدایت و معرفت کا جو چمکارا کسی کو پہنچتا ہے اسی بارگاہ رفیع سے پہنچتا ہے۔ تمام علویات و سفلیات اس کی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ سے منور ہیں۔ حسن و جمال یا خوبی و کمال کی کوئی چمک اگر کہیں نظر پڑتی ہے وہ اس کے وجہ منور اور ذات مباک کے جمال و کمال کا ایک پر تو ہے۔

سیرت ابن اسحٰق میں ہے کہ طائف میں جب لوگوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا تو یہ دعا زبان پر تھی۔

اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظلمَاتُ وَ صَلَحُ عَلَیَہِ اَمْرُ الدُّنْیَا والْاٰ خِرَۃِ اَنْ یَحُلَّ بِیْ غَضَبُکَ اَوْ یَنْزِل بِیْ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی ترضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔
رات کی تاریکی میں آپ اپنے رب کو اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر پکارا کرتے اور اپنے کان، آنکھ، دل، ہر ہر عضو بلکہ بال بال میں اس سے نور طلب فرماتے تھے اور

اخیر میں بطور خلاصہ فرماتے وَاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا یا وَاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا یا وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا یعنی میرے نور کو بڑھا بلکہ مجھے نور ہی نور بنا دے۔

اور ایک حدیث میں ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ خَلْقَہٗ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ القیٰ عَلَیْھِمْ مِنْ نُوْرِہٖ فَمَنْ اَصَابَہٗ مِنْ نُوْرِہٖ یَوْمَئِذٍ اھْتَدیٰ وَمَنْ اَخْطَاہٗ ضَلَّ (فتح الباری ۶۔۴۳۰) یعنی جس کو اس وقت اللہ کے نور (توفیق) سے حصہ ملا وہ ہدایت پر آیا اور جو اس سے چوکا گمراہ رہا۔ واضح رہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات مثلاً سمع، بصر وغیرہ کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی صفت نور بھی ہے ممکنات کے نور پر قیاس نہ کیا جائے۔ تفصیل کے لئے امام غزالی کا رسالہ "مشکوٰۃ الانوار” دیکھو۔

[۶۷]یعنی یوں تو اللہ کے نور سے تمام موجودات کی نمود ہے۔ لیکن مومنین مہتدین کو نور الہٰی سے ہدایت و عرفان کا جو خصوصی حصہ ملتا ہے۔

اس مثال کی ایک عمدہ توجیہہ:

اس کی مثال ایسی سمجھو گویا مومن قانت کا جسم ایک طاق کی طرح ہے جس کے اندر ایک ستارہ کی طرح چمکدار شیشہ (قندیل) رکھا ہو۔ یہ شیشہ اس کا قلب ہوا جس کا تعلق عالم بالا سے ہے۔ اس شیشہ (قندیل) میں معرفت و ہدایت کا چراغ روشن ہے، یہ روشنی ایسے صاف و شفاف اور لطیف تیل سے حاصل ہو رہی ہے جو ایک نہایت ہی مبارک درخت (زیتون) سے نکل کر آیا ہے اور زیتون بھی وہ جو کسی حجاب سے نہ مشرق میں ہو نہ مغرب میں یعنی کسی طرف دھوپ کی روک نہیں کھلے میدان میں کھڑا ہے جس پر صبح و شام دونوں وقت کی دھوپ پڑتی ہے۔

تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایسے زیتون کا تیل اور ابھی زیادہ لطیف و صاف ہوتا ہے۔ غرض اس کا تیل اس قدر صاف اور چمکدار ہے کہ بدون آگ دکھلائے ہی معلوم ہوتا ہے کہ خودبخود روشن ہو جائے گا۔ یہ تیل میرے نزدیک اسی حسن استعداد اور نور توفیق کا ہوا جو نور مبارک کے القاء سے بدء فطرت میں مومن کو حاصل ہوا تھا۔

جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں گذر چکا اور جس طرح شجرہ مبارکہ کو لَاشَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ فرمایا تھا وہ نور ربانی بھی جہت کی قید سے پاک ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ مومن کا شیشہ دل نہایت صاف ہو تا ہے، اور خدا کی توفیق سے اس میں قبول حق کی ایسی زبردست استعداد پائی جاتی ہے کہ بدون دیا سلائی دکھائے ہی جل اٹھنے کو تیار ہوتا ہے اب جہاں ذرا آگ دکھائی یعنی وحی و قرآن کی تیز روشنی نے اس کو مس کیا فورًا اس کی فطری روشنی بھڑک اٹھی۔

اسی کو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ فرمایا باقی سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے جس کو چاہے اپنی روشنی عنایت فرمائے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کس کو یہ روشنی ملنی چاہئے۔ کس کو نہیں

ان عجیب و غریب مثالوں کا بیان فرمانا بھی اسی غرض سے ہے کہ استعداد رکھنے والوں کو بصیرت کی ایک روشنی حاصل ہو۔ حق تعالیٰ ہی تمثیل کے مناسب موقع و محل کو پوری طرح جانتا ہے، کسی دوسرے کو قدرت کہاں کہ ایسی موزوں و جامع مثال پیش کر سکے۔

آگے فرمایا کہ وہ روشنی ملتی ہے اس سے کہ جن مسجدوں میں کامل لوگ صبح و شام بندگی کرتے ہیں وہاں دھیان لگا رہے۔ (تنبیہ) مفسرین نے تشبیہ کی تقریر بہت طرح کی ہے، حضرت شاہ صاحبؒ نے بھی موضح القرآن میں نہایت لطیف و عمیق تقریر فرمائی ہے مگر بندہ کے خیال میں جو توجیہہ آئی وہ درج کر دی۔ وَلِلنّاس فیما یعشقون مذاھبٗ واضح رہے کہ یُوقَدُ اور وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ میں جس نار کی طرف اشارہ ہے میں نے مشبہ میں اس کی جگہ وحی و قرآن کو رکھا ہے۔ اس کا ماخذ وہ فائدہ ہے

جو حضرت شاہ صاحبؒ نے مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَنَارًا پر لکھا ہے اور جس کی تائید صحیحین کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں۔ اِنَّمَا مَثَلِیْ وَ مَثَلُ النّاسِ کَرجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فلما اضاءَتْ مَا حَوْلَہٗ جَعَلَ الفِرَاشُ وَھٰذہِ الدَّوابُّ
الَّتِیْ یَقَعْنَ فِیْھَا الخ

[۶۸]مسجد کی تعظیم و تطہیر:
ان کی تعظیم و تطہیر کا حکم دیا یعنی ان کی خبرگیری کی جائے اور ہر قسم کی گندگی اور لغو افعال و اقوال سے پاک رکھا جائے مساجد کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ وہاں پہنچ کر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے۔

[۶۹]تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن وغیرہ سب اذکار ا س میں شامل ہیں۔

[۷۰]یعنی تمام مناسب اوقات میں خدا کو یاد کرتے ہیں بعض مفسرین نے کہا کہ "غدو” سے صبح کی نماز مراد ہے اور "آصال” میں باقی چاروں نمازمیں داخل ہیں۔ کیونکہ اصیل زوال شمس سے صبح تک کے اوقات پر بولا جاتا ہے۔

[۷۱]رجال اللہ کبھی غافل نہیں ہوتے:
یعنی معاش کے دھندے انکو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خرید و فروخت کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ ہی شان تھی۔

[۷۲]یعنی اس روز دل وہ باتیں سمجھ لیں گے جو ابھی تک نہ سمجھے تھے اور آنکھیں وہ ہولناک واقعات دیکھیں گی جو کبھی نہ دیکھے تھے، قلوب میں کبھی نجات کی توقع پید اہو گی، کبھی ہلاکت کا خوف۔ اور آنکھیں کبھی داہنے کبھی بائیں دیکھیں گی کہ دیکھئے کس طرف سے پکڑے جائیں یا کس جانب سے اعمالنامہ ہاتھ میں دیا جائے۔

[۷۳]یعنی اچھے کاموں کا جو صلہ مقرر ہے وہ ملے گا۔ اور حق تعالیٰ کے فضل سے اور زیادہ دیا جائے گا۔ جسکی تفصیل و تعیین ابھی نہیں کی جا سکتی۔

[۷۴]یعنی اس کے ہاں کیا کمی ہے، اگر جنتیوں کو بیحدوحساب عنایت فرمائے تو کچھ مشکل نہیں۔

[۷۵]کفار کے اعمال کی مثال:
کافر دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے، حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو تو کفر کی شامت سے وہ عنداللہ مقبول و معتبر نہیں۔ ان فریب خوردہ کافروں کی مثال ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی۔ پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا، دیکھا تو پانی وانی کچھ نہ تھا، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے کھڑی تھی اور اللہ تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کے لئے موجود تھا، چنانچہ اسی اضطراب و حسرت کے وقت اللہ نے اس کا سب حساب ایک دم میں چکا دیا۔ کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی ہے۔ ہاتھوں ہاتھ عمر بھر کی شرارتوں اور غفلتوں کا بھگتان کر دیا گیا۔ دوسرے وہ ہیں جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور جہل و کفر، ظلم و عصیان کی اندھیریوں میں پڑے غوطے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی، ان کے پاس روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی سراب پر دھوکہ کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ لوگ خالص اندھیریوں اور تہ بر تہ ظلمات میں بند ہیں۔ کسی طرف سے روشنی کی شعاع اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ نعوذ باللہ۔

[۷۶]یعنی سمندر کی تہ میں خود دریا کا اندھیرا، اس پر طوفانی لہریں جو ایک پر ایک چڑھی آتی ہیں پھر سب کے اوپر گھٹا بادل کا اندھیرا، اور رات کا وقت فرض کیا جائے تو ان اندھیریوں میں اور اضافہ ہو جائے گا۔

[۷۷]یعنی اپنا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں سے قریب کر کے دیکھے تو اندھیرے کی وجہ سے نظر نہ آئے جس کو ہمارے یہاں کہتےہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں پہچانتا۔

[۷۸]اوپر مومنین کے ذکر میں جو یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ فرمایا تھا، یہ جملہ اس کے مقابل ہوا یعنی جس کو خدا تعالیٰ نور توفیق نہ دے اسے اور کون روشنی پہنچا سکتا ہے۔ ان کی استعداد خراب تھی توفیق نہ ملی۔ اور دریا کی تہ میں گر کر انہوں نے سب دروازے روشنی کے اپنے اوپر بند کر لئے۔ پھر نور آئے تو کدھر سے آئے۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

دوسرے گھروں میں داخلے کی اجازت کا حکم اور آداب

سورة النور آیات۲۷ـ۳۴

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۷﴾

اے ایمان والو مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھروں کے سوائے جب تک بول چال نہ کر لو اور سلام کر لو ان گھر والوں پر یہ بہتر ہے تمہارے حق میں تاکہ تم یاد رکھو [۳۸]

O you who believe, do not enter any houses, other than your own houses unless you seek permission and greet their inmates with Salām . That is good for you, so that you may be heedful.

فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَا حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿۲۸﴾

پھر اگر نہ پاؤ اس میں کسی کو تو اس میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ ملے تم کو [۳۹] اور اگر تم کو جواب ملے کہ پھر جاؤ تو پھر جاؤ اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے لئے [۴۰] اور اللہ جو تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے [۴۱]

Even if you do not find anyone in them, do not enter therein until permission is given to you. And if it is said to you, ‘Go back’, just go back; it is more decent for you. Allah is All-Aware of what you do.

لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ مَسۡکُوۡنَۃٍ فِیۡہَا مَتَاعٌ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا تَکۡتُمُوۡنَ ﴿۲۹﴾

نہیں گناہ تم پر اس میں کہ جاؤ ان گھروں میں جہاں کوئی نہیں بستا اس میں کچھ چیز ہو تمہاری [۴۲] اور اللہ کو معلوم ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو [۴۳]

There is no sin on you if you enter uninhabited houses in which you have rightful benefit. Allah knows what you reveal and what you conceal.

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۳۰﴾

کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ذری اپنی آنکھیں [۴۴] اور تھامتے رہیں اپنے ستر کو [۴۵] اس میں خوب ستھرائی ہے انکے لئے بیشک اللہ کو خبر ہے جو کچھ کرتےہیں [۴۶]

Tell the believing men that they must lower their gazes and guard their private parts; it is more decent for them. Surely Allah is All-Aware of what they do.

وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۱﴾

اور کہہ دے ایمان والیوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں اور تھامتی رہیں اپنے ستر کو اور نہ دکھائیں اپنا سنگار مگر جو کھلی چیز ہے اس میں سے [۴۷] اور ڈال لیں اپنی اوڑھنی اپنے گریبان پر [۴۸] اور نہ کھولیں اپنا سنگار مگر اپنے خاوند کے آگے یا اپنے باپ کے [۴۹] یا پنے خاوند کے باپ کے یا اپنے بیٹے کے یا اپنے خاوند کے بیٹے کے یا اپنے بھائی کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی عورتوں کے [۵۰] یا اپنے ہاتھ کے مال کے [۵۱] یا کاربار کرنے والوں کے (خدمت میں مشغول رہنے والوں کے) جو مرد کہ کچھ غرض نہیں رکھتے [۵۲] یا لڑکوں کے جنہوں نے ابھی نہیں پہچانا عورتوں کے بھید کو [۵۳] اور نہ ماریں زمین پر اپنے پاؤں کو کہ جانا جائے جو چھپاتی ہیں اپنا سنگار [۵۴] اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو تاکہ تم بھلائی پاؤ [۵۵]

And tell the believing women that they must lower their gazes and guard their private parts, and must not expose their adornment, except that which appears thereof, and must wrap their bosoms with their shawls, and must not expose their adornment, except to their husbands or their fathers or the fathers of their husbands, or to their sons or the sons of their husbands, or to their brothers or the sons of their brothers or the sons of their sisters, or to their women, or to those owned by their right hands, or male attendants having no (sexual) urge, or to the children who are not yet conscious of the shames of women. And let them not stamp their feet in a way that the adornment they conceal is known. And repent to Allah O believers, all of you, so that you may achieve success.

وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۳۲﴾

اور نکاح کر دو رانڈوں کا اپنے اندر [۵۶] اور جو نیک ہوں تمہارے غلام اور لونڈیاں [۵۷] اگر وہ ہوں گے مفلس اللہ ان کو غنی کر دے گا اپنے فضل سے [۵۸] اور اللہ کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے [۵۹]

Arrange the marriage of the spouseless among you, and the capable from among your bondmen and bondwomen. If they are poor, Allah will enrich them out of His grace. Allah is All-Encompassing, All-Knowing.

وَ لۡیَسۡتَعۡفِفِ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغۡنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا ٭ۖ وَّ اٰتُوۡہُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ لَا تُکۡرِہُوۡا فَتَیٰتِکُمۡ عَلَی الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَنۡ یُّکۡرِہۡہُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِکۡرَاہِہِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۳﴾

اور اپنے آپ کو تھامتے رہیں جن کو نہیں ملتا سامان نکاح کا جب تک کہ مقدور دے ان کو اللہ اپنے فضل سے [۶۰] اور جو لوگ چاہیں لکھت آزادی کی مال دے کر ان میں سے کہ جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں (جن کے مالک ہیں تمہارےہاتھ) تو انکو لکھ کر دیدو اگر سمجھو ان میں کچھ نیکی [۶۱] اور دو ان کو اللہ کے مال سے جو اس نے تم کو دیا ہے [۶۲] اور نہ زبردستی کرو اپنی چھوکریوں پر بدکاری کے واسطے اگر وہ چاہیں قید سے رہنا کہ تم کمانا چاہو اسباب دنیا کی زندگانی کا [۶۳] اور جو کوئی ان پر زبردستی کرے گا تو اللہ ان کی بے بسی کے پیچھے بخشنے والا مہربان ہے [۶۴]

And those who cannot afford marriage should keep themselves chaste until Allah enriches them out of His grace. And those of your slaves who wish to enter the contract of Kitābah (emancipation by paying money), contract Kitābah with them, if you recognize some good in them. And give them out of the wealth of Allah that He has given to you. And do not compel your maids to prostitution – if they wish to observe chastity – in order that you may seek the temporary benefit of the worldly life. If one compels them, then after their being compelled, Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful.

وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۳۴﴾

اور ہم نے اتاریں تمہاری طرف آیتیں کھلی ہوئی اور کچھ حال انکا جو ہو چکے تم سے پہلے اور نصیحت ڈرنے والوں کو [۶۵]

Indeed We have sent down to you enlightening verses, and an exemplary description of those who passed away before you, and a good counsel for the God-fearing.

[۳۸]دوسرے گھروں میں داخلے کی اجازت کا حکم اور آداب:

یعنی خاص اپنے ہی رہنے کا جو گھر ہو اس کے سوا کسی دوسرے کے رہنے کے گھر میں یوں ہی بے خبر نہ گھس جائے کیا جانے وہ کس حال میں ہو اور اس وقت کسی کا اندر آنا پسند کرتا ہے یا نہیں۔ لہذا اندر جانے سے پہلے آواز دے کر اجازت حاصل کرے اور سب سے بہتر آواز سلام کی،

حدیث میں ہے کہ تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت داخل ہونے کی لے۔ اگر تین بار سلام کرنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ فی الحقیقت یہ ایسی حکیمانہ تعلیم ہے کہ اگر اس کی پابندی کی جائے تو صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ مگر افسوس آج مسلمان ان مفید ہدایات کو ترک کرتے جاتے ہیں جن کو دوسری قومیں ان ہی سے سیکھ کر ترقی کر رہی ہیں (ربط) شروع سورت سے احکام زنا و قذف وغیرہ بیان ہوئے تھے۔ چونکہ بسا اوقات بلا اجازت کسی کےگھر میں چلا جانا ان امور کی طرف مفضی ہو جاتا ہے، اس لئے ان آیات میں مسائل استئذان کو بیان فرما دیا۔

[۳۹]اگر یہ معلوم ہوا ہو کہ گھر میں کوئی موجود نہیں تب بھی دوسرے کے گھر میں بدون مالک و مختار کی اجازت کے مت جاؤ۔ کیونکہ مِلک غیر میں بدون اجازت تصرف کا کوئی حق نہیں۔ نہ معلوم بے اجازت چلے جانے سے کیا جھگڑا پیش آ جائے۔ ہاں صراحۃً یا دلالۃً اجازت ہو تو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

[۴۰]اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ:
یعنی ایسا کہے سے برا نہ مانو۔ بسا اوقات آدمی کی طبیعت کسی سے ملنے کو نہیں چاہتی یا حرج ہوتا ہے یا کوئی ایسی بات کر رہا ہے جس پر غیر کو مطلع کرنا پسند نہیں ہو تو تم کو کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس پر بوجھ ڈالو۔ اس طرح بار خاطر بننے سے تعلقات صاف نہیں رہتے۔

[۴۱]وہ تمہارے تمام اعمال قلبیہ و قالبیہ سے باخبر ہے جیسا کچھ کرو گے اور جس نیت سےکرو گے حق تعالیٰ اس کے مناسب جزا دے گا۔ اور اس نے اپنے علم محیط سے تمام امور کی رعایت کر کے یہ احکام دیے ہیں۔

[۴۲]اجازت سے مستثنٰی مکانات:
یعنی جن مکانوں میں کوئی خاص آدمی نہیں رہتا نہ کوئی روک ٹوک ہے مثلاً مسجد، مدرسہ، خانقاہ، سرائے وغیرہ۔ اگر وہاں تمہاری کوئی چیز ہے یا تم کو چندے اس کے برتنے کی ضرورت ہے تو بیشک وہاں جا سکتے ہو۔ اس کے لئے استیذان کی ضرورت نہیں اس طرح کے مسائل کی تفصیل فقہ میں دیکھی جائے۔

[۴۳]اس نے تمہارے تمام چھپے کھلے حالات کی رعایت سے یہ احکام مشروع کئے ہیں جن سے مقصود فتنہ و فساد کے مداخل کو بند کرنا ہے مومن کو چاہے کہ اپنے دل میں اسی غرض کو پیش نظر رکھ کر عمل کرے۔

[۴۴]نظریں نیچی رکھنے کا حکم:

بدنطری عمومًا زنا کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی سے بڑے بڑے فواحش کا دروازہ کھلتا ہے ۔ قرآن کریم نے بدکاری اور بے حیائی کا انسداد کرنے کے لئے اول اسی سوراخ کو بند کرنا چاہا۔ یعنی مسلمان مرد و عورت کو حکم دیا کہ بدنظری سے بچیں اور اپنی شہوات کو قابو میں رکھیں۔ اگر ایک مرتبہ بے ساختہ مرد کی کسی اجنبی عورت یا عورت کی کسی اجنبی مرد پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ ارادہ سے اس طرف نظر نہ کرے۔ کیونکہ یہ دوبارہ دیکھنا اس کے اختیار سے ہوگا۔ جس میں وہ معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر آدمی نگاہ نیچی رکھنے کی عادت ڈال لے اور اختیار و ارادہ سے ناجائز امور کی طرف نطر اٹھا کر نہ دیکھا کرے تو بہت جلد اس کے نفس کا تزکیہ ہو سکتا ہے ۔ چونکہ پہلی مرتبہ دفعۃً جو بیساختہ نظر پڑتی ہے۔ ازراہ شہوت و نفسانیت نہیں ہوتی۔ اس لئے حدیث میں اس کو معاف رکھا گیا ہے۔ شاید یہاں بھی مِنْ اَبْصَارِھِمْ میں مِنْ کو تبعیضیہ لے کر اسی طرف اشارہ ہو۔

[۴۵]ستر کی حفاظت:

یعنی حرامکاری سے بچیں اور ستر کسی کے سامنے نہ کھولیں۔

اِلَّاعِنْدَ مَنْ اَبَاحَہٗ الشَّارِعُ مِنَ الْاَزْوَاجِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانَہُمْ ۔
[۴۶]یعنی آنکھ کی چوری اور دلوں کے بھید اور نیتوں کا حال اس کو سب معلوم ہے۔ لہذا اس کا خیال کر کے بد نگاہی اور ہرقسم کی بدکاری سے بچو۔ ورنہ وہ اپنے علم کے موافق تم کو سزا دے گا۔ یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ (مومن۔۱۹) حضرت شاہ صاحبؒ نے مَایَصْنَعُوْنَ سے مردا غالبًا جاہلیت کی بے اعتدالیاں لی ہیں۔ یعنی جو بے اعتدالیاں پہلے سے کرتے آ رہے ہو اللہ کو سب معلوم ہے اسی لئے اب اس نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ سے یہ احکام جاری کئے تا تمہارا تزکیہ ہو سکے۔

[۴۷]عورتوں کے پردے کے احکام:

سنگار عرف میں خارجی اور کسبی آرائش کو کہتے ہیں جو مثلاً لباس یا زیور وغیرہ سے حاصل ہو۔ احقر کے نزدیک یہاں "زینت” کا ترجمہ "سنگار” کے بجائے "زیبائش” کیا جاتا تو زیادہ جامع اور مناسب ہوتا۔ زیبائش کا لفظ ہر قسم کی خلقی اور کسبی زینت کو شامل ہے، خواہ وہ جسم کی پیدائشی ساخت سے متعلق ہو یا پوشاک وغیرہ خارجی ٹیپ ٹاپ سے۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ عورت کو کسی قسم کی خلقی یا کسبی زیبائش کا اظہار بجز محارم کے جن کا ذکر آگے آتا ہے، کسی کے سامنے جائز نہیں۔ ہاں جس قدر زیبائش کا ظہور ناگزیر ہے اور ا سکے ظہور کو بسبب عدم قدرت یا ضرورت کے روک نہیں سکتی، اس کے بمجبوری یا بضرورت کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں (بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو)۔

حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کفین (ہتھیلیاں) اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا ۔ میں داخل ہیں۔ کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر ان کےچھپانے کا مطلقًا حکم دیا جائے تو عورتوں کے لئے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی۔ آگے فقہاء نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضاء مستثنٰی ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی، چھلا، یا مہندی، کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔ لیکن واضح رہے کہ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا سے صرف عورتوں کو بضرورت ان کے کھلا رکھنے کی اجازت ہوئی۔ نامحرم مردوں کو اجازت نہیں دی گئ کہ وہ آنکھیں لڑایا کریں اور ان اعضاء کا نظارہ کیا کریں۔ شاید اسی لئے اس اجازت سے پیشتر ہی حق تعالیٰ نے غض بصر کا حکم مومنین کو سنادیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف سے کسی عضو کے کھولنے کی اجازت اس کو مستلزم نہیں کہ دوسری طرف سے اس کو دیکھنا بھی جائز ہو۔

آخر مرد جن کے لئے پردہ کا حکم نہیں اسی آیت بالا میں عورتوں کو ان کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا۔ نیز یاد رکھنا چاہئے کہ ان آیات میں محض ستر کا مسئلہ بیان ہوا ہے یعنی اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ اپنے گھر کے اندر ہو یا باہر، عورت کو کس حصہ بدن کا کس کےسامنے کن حالات میں کھلا رکھنا جائز ہے۔ باقی مسئلہ "حجاب” یعنی شریعت نے اس کو کن حالت میں گھر سے باہر نکلنے اور سیرو سیاحت کرنے کی اجازت دی، یہاں مذکور نہیں۔ اس کی کچھ تفصیل انشاء اللہ سورۂ احزاب میں آئیگی۔ اور ہم نے فتنہ کا خوف نہ ہونے کی جو شرط بڑھائی وہ دوسرے دلائل اور قواعد شرعیہ سے ماخوذ ہے جو ادنیٰ تامل اور مراجعت نصوص سے دریافت ہو سکتی ہیں۔

[۴۸]اوڑھنی کا حکم اور طریقہ:

بدن کی خلقی زیبائش میں سے سے زیادہ نمایاں چیز سینہ کا ابھار ہے، اس کے مزید تستر کی خاص طور پر تاکید فرمائی اور جاہلیت کی رسم کو مٹانے کی صورت بھی بتلا دی۔ جاہلیت میں عورتیں خمار اوڑھنی سر پر ڈال کر اس کے دونوں پلے پشت پر لٹکا لیتی تھیں۔ اس طرح سینہ کی ہیئت نمایاں رہتی تھی۔ یہ گویا حسن کا مظاہرہ تھا۔ قرآن کریم نے بتلا دیا کہ اوڑھنی کو سر پر سے لا کر گریبان پر ڈالنا چاہئے تاکہ اس طرح کان، گردن اور سینہ پوری طرح مستور رہے۔

[۴۹]محرم لوگوں کی تفصیل:

چچا اور ماموں کا بھی یہ ہی حکم ہے اور ان محارم میں پھر فرق مراتب ہے۔ مثلاً جو زینت خاوند کے آگے ظاہر کر سکتی ہے دوسرے محارم کے سامنے نہیں کر سکتی۔ ابدائے زینت کے درجات ہیں جن کی تفصیل تفاسیر اور کتب فقہ میں دیکھنی چاہئے۔ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ جس قدر تستر کا اہتمام اجنبیوں سے تھا اتنا محارم سے نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک عضو کو ان میں سے ہر ایک کے آگے کھول سکتی ہے۔

[۵۰]یعنی جو عورتیں اس کے پاس اٹھنے بیٹھنے والی ہیں بشرطیکہ نیک چلن ہوں بدراہ عورتوں کے سامنے نہیں۔ اور بہت سے سلف کے نزدیک اس سے مسلمان عورتیں مراد ہیں۔کافر عورت اجنبی مرد کے حکم میں ہے۔

[۵۱]یعنی اپنی لونڈیاں (باندیاں) اور بعض سلف کے نزدیک مملوک غلام بھی اس میں داخل ہے اور ظاہر قرآن سے اسی کی تائید ہوتی ہے لیکن جمہور ائمہ اور سلف کا یہ مذہب نہیں۔

[۵۲]یعنی کمیرے خدمتگار جو محض اپنے کام سے کام رکھیں اور کھانے سونے میں غرق ہوں، شوخی نہ رکھتےہوں یا فاترالعقل پاگل جن کے حواس وغیرہ بھی ٹھکانے نہ ہوں، محض کھانے پینے میں گھر والوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔

[۵۳]یا جن لڑکوں کو ابھی تک نسوانی سرائر کی کوئی تمیز نہیں، نہ نفسانی جذبات رکھتے ہیں۔

[۵۴]عورتوں کے چلنے پھرنے کے آداب:
یعنی چال ڈھال ایسی نہ ہونی چاہئے کہ زیور وغیرہ کی آواز سے اجانب کو ادھر میلان اور توجہ ہو۔ بسا اوقات اس قسم کی آواز صورت دیکھنے سے بھی زیادہ نفسانی جذبات کے لئے محرک ہو جاتی ہے۔

[۵۵]توبہ کا حکم:
یعنی پہلے جو کچھ حرکات ہو چکیں ان سے توبہ کرو اور آئندہ کے لئے ہر مرد و عورت کو خدا سے ڈر کر اپنی تمام حرکات و سکنات اور چال چلن میں انابت اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ اس میں دارین کی بھلائی اور کامیابی ہے۔

[۵۶]دوسرے نکاح کا حکم:
اوپر استئذان، غضِ بصر اور تستّر وغیرہ کے احکامات بیان ہوئے تھے، تا بیحیائی اور بدکاری کی روک تھام کی جائے۔ اس آیت میں یہ حکم دیا کہ جن کا نکاح نہیں ہوا یا ہو کر بیوہ اور رنڈوے ہو گئے تو موقع مناسب ملنے پر ان کا نکاح کر دیا کرو۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "اے علی! تین کاموں میں دیر نہ کرو، نماز فرض کا جب وقت آ جائے، جنازہ جب موجود ہو، اور رانڈ عورت جب اس کا کفو مل جائے”۔ جو قومیں رانڈوں کے نکاح پر ناک بھٔوں چڑھاتی ہیں سمجھ لیں کہ ان کا ایمان سلامت نہیں۔

[۵۷]یعنی لونڈی غلام کو اگر اس لائق سمجھو کہ حقوق زوجیت ادا کر سکیں اور نکاح ہو جانے پر مغرور ہو کر تمہاری خدمت نہ چھوڑ بیٹھیں گے تو ان کا بھی نکاح کر دو۔

[۵۸]افلاس کی وجہ سے نکاح کو مت چھوڑو:

بعض لوگ نکاح میں اس لئے پس و پیش کیا کرتے ہیں کہ نکاح ہو جانے کے بعد بیوی بچوں کا بار کیسے اٹھے گا۔ انہیں سمجھا دیا کہ ایسے موہوم خطرات پر نکاح سے مت رکو۔ روزی تمہاری اور بیوی بچوں کی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کیا معلوم ہے کہ خدا چاہے تو ان ہی کی قسمت سے تمہارے رزق میں کشائش کر دے۔ نہ مجرد رہنا غنا کا موجب ہے اور نہ نکاح کرنا فقر و افلاس کو مستلزم ہے۔ یہ باتیں حق تعالیٰ کی مشیت پر ہیں۔

جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ۔ (توبہ۔۲۸) اور ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی یہ چیز معقول ہے کہ نکاح کر لینے یا ایسا ارادہ کر نے سے آدمی پر بوجھ پڑتا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر کمائی کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔ ادھر بیوی اور اولاد ہو جائے تو وہ بلکہ بعض اوقات بیوی کے کنبہ والے بھی کسب معاش میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بہرحال روزی کی تنگی یا وسعت نکاح یا تجرد پر موقوف نہیں۔ پھر یہ خیال نکاح سے مانع کیوں ہو۔

[۵۹]جس کے حق میں مناسب جانتا ہے کشائش کر دیتا ہے۔

[۶۰]نکاح ہونے تک پاکدامن رہیں:
یعنی جن کو فی الحال اتنا بھی مقدور نہیں کہ کسی عورت کو نکاح میں لا سکیں تو جب تک خدا تعالیٰ مقدور دے چاہئے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں۔ اور عفیف رہنے کی کوشش کریں۔ کچھ بعید نہیں کہ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے حق تعالیٰ ان کو غنی کر دے اور نکاح کے بہترین مواقع مہیا فرما دے۔

[۶۱]مکاتبت کا حکم:

یعنی کسی کا غلام یا لونڈی کہے یا مزید توثیق کے لئے لکھوانا چاہے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر مال تجھ کو کما دوں تو مجھے آزاد کر دے، تو مالک کو چاہئے کہ قبول کر لے اور لکھ دے ( اس معاملہ کو "مکاتبۃ” کہتے ہیں۔ اور یہ غلاموں کے آزاد کرانے کی ایک خاص صورت ہے) لیکن یہ مالک کو اس وقت قبول کرنا چاہئے جبکہ وہ سمجھے کہ واقعی اس غلام یا لونڈی کے حق میں آزادی بہتر ہو گی۔ قید غلامی سےچھوٹ کر چوری یا بدکاری یا اور طرح کی بدمعاشیاں کرتا نہ پھرے گا۔ اگر یہ اطمینان ہو تو بیشک اس کو آزادی کا موقع دینا چاہئے۔ تا وہ آزاد ہو کر اپنی فلاح کے میدانوں میں خوب ترقی کر سکے اور کہیں نکاح کرنا چاہے تو بااختیار خود نکاح کر لے۔ غلامی کی وجہ سے میدان تنگ نہ ہو۔

[۶۲]غلاموں کی مالی امداد:
یہ دولتمند مسلمانوں کو فرمایا کہ ایسی لونڈی غلام کی مالی امداد کرو۔ خواہ زکوٰۃ سے یا عام صدقات و خیرات وغیرہ سے تاکہ وہ جلد آزادی حاصل کر سکیں، اور اگر مالک بدل کتابت کا کوئی حصہ معاف کر دے، یہ بھی بڑی امداد ہے۔ (تنبیہ) مصارف زکوٰۃ میں جو وَفِی الرِّقاب کا ایک مد لکھا ہے وہ ان ہی غلاموں کے آزاد کرانے کا فنڈ ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بیت المال سے ایسے غلاموں کی امداد ہوتی تھی۔

[۶۳]لونڈیوں سے بدکاری کرانا:

جاہلیت میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے پاس کئ لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کرا کر روپیہ حاصل کرتا تھا۔ ان میں بعض مسلمان ہو گئیں تو اس فعل شنیع سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ ملعون زدوکوب کرتا تھا۔ یہ آیت اسی قصہ میں نازل ہوئی۔ اور

اسی شان نزول کی رعایت سے مزید تقبیح کے لئے اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا اور لِّتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کی قیو دبڑھائی ہیں۔ ورنہ لونڈیوں سے بدکاری کرانا بہرحال حرام ہے اور اس طرح جو کمائی کریں سب ناپاک ہے خواہ لونڈیاں یہ کام رضا و رغبت سے کریں یا زبردستی اور ناخوشی سے۔ ہاں اگر لونڈیاں نہ چاہیں اور یہ محض دنیا کے حقیر فائدے کے لئے زبردستی مجبور کرے تو اور بھی زیادہ وبال اور انتہائی وقاحت اور بے شرمی کی دلیل ہے۔

[۶۴]یعنی زنا ایسی بری چیز ہے جو جبر و اکراہ کے بعد بھی بری رہتی ہے لیکن حق تعالیٰ محض اپنی رحمت سے مکرَہ کی بے بسی اور بیچارگی کو دیکھ کر درگذر فرماتا ہے۔ اس صورت میں مِکرہ (زبردستی کرنے والے) پر سخت عذاب ہو گا اور مکرَہ پر (جس پر زبردستی کی گئ) رحم کیا جائے گا۔

[۶۵]قرآن کریم میں گذشتہ اقوام کے حالات:
یعنی قرآن کریم میں سب کچھ نصیحتیں احکام اور گذشتہ اقوام کے عبرتناک واقعات بیان کر دیے گئے ہیں۔ تا خدا کا ڈر رکھنے والے سن کر نصیحت و عبرت حاصل کریں اور اپنے انجام کو سوچیں یا مثلاً مِنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا سے مراد یہ ہو کہ پہلی امتوں پر بھی اسی طرح کی حدود اور احکام جاری کئے گئے تھے جو اس صورت میں مذکور ہوئے ۔ اور بعض قصے بھی اس قصہ "افک” کے مشابہ پیش آئے جو سورہ ہذا میں بیان کیا گیا ہے۔

پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم صدیقہ اور حضرت یوسف صدیق کی دشمنوں کے بہتان سے برأت ظاہر فرمائی، عائشہ صدیقہ بنت الصدیق کی برأت اور بزرگی بھی تا قیام قیامت صادقین کے قلوب میں نقش فی الحجر کر دی۔ اور دشمنوں کا منہ کالا کیا۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی قسم

سورة النور آیات۲۱ـ۲۶

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۱﴾

اے ایمان والو نہ چلو قدموں پر شیطان کے اور جو کوئی چلے گا قدموں پر شیطان کےسو وہ تو یہی بتلائے گا بیحائی اور بری بات [۲۹] اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت تو نہ سنورتا تم میں ایک شخص بھی کبھی و لیکن اللہ سنوارتا ہے جس کو چاہے اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے [۳۰]

O you who believe, do not follow the footsteps of Satan. Whoever follows the footsteps of Satan, (should know that) he orders (one to commit) shameful acts and evil deeds. Had it not been for the grace of Allah upon you, and His mercy, not a single person from you would have ever attained purity. But Allah purifies whomsoever He wills. Allah is All-Hearing, All-Knowing.

وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۲﴾

اور قسم نہ کھائیں بڑے درجہ والے تم میں سے اور کشائش والے اس پر کہ دیں قرابتیوں کو اور محتاجوں کو اور وطن چھوڑنے والوں کو اللہ کی راہ میں اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۳۱]

The men of grace and wealth among you should not swear against giving (their charitable gifts) to the kinsmen and the poor and to those who have migrated in the way of Allah, and they should forgive and forego. Do you not like that Allah forgives you? Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful.

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡغٰفِلٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ لُعِنُوۡا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۲۳﴾

جو لوگ عیب لگاتے ہیں حفاظت والیوں بیخبر ایمان والیوں کو ان کو پھٹکار ہے دنیا میں اور آخرت میں اور انکے لئے ہے بڑا عذاب [۳۲]

Surely, those who level a false charge against the chaste, natve and believing women are cursed in this world and the Hereafter, and for them there is a mighty punishment

یَّوۡمَ تَشۡہَدُ عَلَیۡہِمۡ اَلۡسِنَتُہُمۡ وَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۴﴾

جس دن کہ ظاہر کر دیں گی ان کی زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں جو کچھ وہ کرتے تھے [۳۳]

on the Day when their tongues, their hands and their legs will testify against themselves of what they used to do.

یَوۡمَئِذٍ یُّوَفِّیۡہِمُ اللّٰہُ دِیۡنَہُمُ الۡحَقَّ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ الۡمُبِیۡنُ ﴿۲۵﴾

اس دن پوری دے گا انکو اللہ ان کی سزا جو چاہئے اور جان لیں گے کہ اللہ وہی ہے سچا کھولنے والا [۳۴]

On that day Allah will give them their rightful recompense in full, and they will know that Allah is the Very Truth who makes all things manifest.

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿٪۲۶﴾

گندیاں ہیں گندوں کے واسطے اور گندے واسطے گندیوں کے اور ستھریاں ہیں ستھروں کے واسطے اور ستھرے واسطے ستھریوں کے [۳۵] وہ لوگ بے تعلق ہیں ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں [۳۶] انکے واسطے بخشش ہے اور روزی ہے عزت کی [۳۷]

Vile women are for vile men, and vile men are for vile women; and good women are for good men, and good men are for good women. Those are free from what they (the accusers) say. For them there is forgiveness, and a graceful provision.

[۲۹]شیطان بے حیائی کی تعلیم دیتا ہے:

یعنی شیطان کی چالوں سے ہشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ شیاطین الانس و الجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بے حیائی اور برائی کی طرف لے جائیں تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرّے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکہ لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔
[۳۰]یعنی شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہو جانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کر دیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور وہ ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہئے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔

[۳۱]حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی قسم:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر طوفان اٹھانے والوں میں بعض مسلمان بھی نادانی سے شریک ہو گئے۔ ان میں سے ایک حضرت مسطح تھے جو ایک مفلس مہاجر ہونے کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ قصہ "افک” سے پہلے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ ان کی امداد اور خبرگیری کیا کرتے۔ جب یہ قصہ ختم ہوا اور عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالی عنہا کی برأت آسمان سے نازل ہو چکی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے قسم کھائی کہ آئندہ مسطح کی امداد نہ کروں گا۔ شاید بعض دوسرے صحابہ کو بھی ایسی صورت پیش آئی ہو۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی تم میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نےدین کی بزرگی اور دنیا کی وسعت دی ہے انہیں لائق نہیں کہ ایسی قسم کھائیں ان کا ظرف بہت بڑا اور ان کےاخلاق بہت بلند ہونے چاہئیں۔ بڑی جوانمردی تو یہ ہی ہے کہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا جائے۔ محتاج رشتہ داروں اور خدا کے لئے وطن چھوڑنے والوں کی اعانت سے دستکش ہو جانا بزرگوں اور
بہادروں کا کام نہیں ۔ اگر قسم کھا لی ہے تو ایسی قسم کو پورا مت کرو۔ اس کا کفارہ ادا کر دو۔

عفو و درگذر کی تعلیم:

تمہاری شان یہ ہونی چاہئے کہ خطاکاروں کی خطا سے اغماض اور درگذر کرو۔ ایسا کرو گے تو حق تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں سے درگذر کرے گا۔ کیا تم حق تعالیٰ سے عفو و درگذر کی امید اورخواہش نہیں رکھتے؟
اگر رکھتے ہو تو تم کو اس کے بندوں کے معاملہ میں یہ ہی خو اختیار کرنی چاہئے۔ گویا اس میں تخلّقْ باخلاقِ اللّٰہ کی تعلیم ہوئی۔ احادیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب
سنا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ (کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کرے؟) تو فورًا بول اٹھے۔
بَلٰی یَا رَبَّنَا انا نُحِبُّ (بیشک اے پروردگار! ہم ضرور چاہتے ہیں) یہ کہہ کر مسطح کی جو امداد کرتے تھے بدستور جاری فرما دی بلکہ بعض روایات میں ہے کہ پہلے سے دگنی کر دی۔ رضی اللہ عنہ۔

[۳۲]ازواج مطہرات پر تہمت لگانے والے اسلام سے خارج ہیں:

صحیحین کی حدیث میں ہے۔
اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الموبقات الشِرْک باللّٰہ وقتل النفسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَکْلَ الرِّبوا وَاکل مال الیتیم وَالتّولّی یَوْمَ الزّحف وَقَذْف المُحْصِنَات الْمُوْمِنَاتِ الْغَافِلاتِ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قذف محصنات مطلقًا مہلکات میں سے ہے۔ پھر ان میں سے بھی ازواج مطہرات بالخصوص ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قذف تو کس درجہ کا گناہ ہو گا علماء نے تصریح کی ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد جو شخص عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا یا ازواج مطہرات میں سے کسی کو متہم کرے وہ کافر، مکذب قرآن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
اور طبرانی کی ایک حدیث میں ہے۔ قَذَفُ الْمُحْصِنَتہ یَھْدِمُ عَمَلَ مِاَۃ سَنَۃٍ
(محصنہ پر تمہت لگانا سو برس کے عمل کو ڈھا دیتا ہے)
العیاذ باللہ۔

[۳۳]حشر میں ہاتھ پاؤں اور زبان کی گواہی:

یعنی مجرم منہ سے بولنا اور ظاہر کرنا نہ چاہے گا۔ مگر خود زبان اور ہاتھ پاؤں بولیں گے اور ان میں سے ہر عضو اس عمل کو ظاہر کرے گا جو اس کے ذریعہ سے کیا گیا تھا۔ (لطیفہ) قاذف نے زبان سے تہمت لگائی تھی اور چار گواہوں کا اس سے مطالبہ تھا جو پورا نہ کر سکا۔ اس کے بالمقابل یہاں یہی پانچ چیزیں ذکر ہوئیں۔ ایک زبان جو قذف کا اصلی آلہ ہے اور چار ہاتھ پاؤں جو اس کی شرارت کے گواہ ہوں گے۔

[۳۴]جو رتی رتی عمل کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے اور جس کا حساب بالکل صاف ہے۔ اس کے ہاں کسی طرح کا ظلم و تعدی نہیں۔ یہ مضمون قیامت کے دن سب کو مکشوف و مشہود ہو جائے گا۔

[۳۵]گندے مرد گندی عورتوں کیلئے اور پاک مرد پاک عورتوں کیلئے:

یعنی بدکار اور گندی عورتیں گندے اور بدکار مردوں کے لائق ہیں۔ اسی طرح بدکار اور گندے مرد اس قابل ہیں کہ ان کا تعلق اپنے جیسی گندی اور بدکار عورتوں سے ہو۔ پاک اور ستھرے آدمیوں کا ناپاک اور بدکاروں سے کیا مطلب۔
ابن عباس نے فرمایا کہ پیغمبر کی عورت بدکار (زانیہ) نہیں ہوتی۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ناموس کی حفاظت فرماتا ہے۔ نقلہ فی موضح القرآن۔ (تنبیہ) آیت کا یہ مطلب تو ترجمے کے موافق ہوا۔ مگر بعض مفسرین سلف سے یہ منقول ہے کہ اَلْخَبِیْثٰتُ اور الطَّیِّبٰتُ سے یہاں عورتیں مراد نہیں۔ بلکہ اقوال و کلمات مراد ہیں۔ یعنی گندی باتیں گندوں کے لائق ہیں۔ اور ستھری باتیں ستھرے آدمیوں کے۔ پاکباز اور ستھرے مرد و عورت ایسی گندی تہمتوں سے بری ہوتے ہیں۔
جیسا کہ آگے اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ سے ظاہر ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ گندی باتیں گندوں کی زبان سے نکلا کرتی ہیں۔ تو جنہوں نے کسی پاکباز کی نسبت گندی بات کہی، سمجھ لو کہ وہ خود گندے ہیں۔

[۳۶]یعنی ستھرے آدمی ان باتوں سے بَری ہیں جو یہ گندے لوگ بکتے پھرتے ہیں۔

[۳۷]یعنی برا کہنے سے وہ برے نہیں ہو جاتے، بلکہ جب وہ اس پر صبر کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی خطاؤں یا لغزشوں کا کفارہ بنتی ہے۔ اور یہاں مفسد لوگ جس قدر ان کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں وہاں اس کے بدلہ میں عزت کی روزی ملتی ہے۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں

واقعہ افک

سورة النور آیات۱۱ـ۲۰

اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱﴾

جو لوگ لائے ہیں یہ طوفان [۱۴] تمہیں میں ایک جماعت ہیں [۱۵] تم اس کو نہ سمجھو برا اپنے حق میں بلکہ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں [۱۶] ہر آدمی کے لئے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے اٹھایا ہے اس کا بڑا بوجھ اس کے واسطے بڑا عذاب ہے [۱۷]

Those who have come up with the false imputation are a gang among you. Do not think it is bad for you; rather, it is good for you. Every one of them is liable for what he earned of the sin. And the one who played the major role in it, for him there is a mighty punishment.

لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲﴾

کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا خیال کیا ہوتا ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں نے اپنے لوگوں پر بھلا خیال اور کہا ہوتا یہ صریح طوفان ہے [۱۸]

Why – when you (O believers) heard of it – did the believing men and the believing women not think well about their own selves, and (why did they not) say, “This is a manifest lie”.

لَوۡ لَا جَآءُوۡ عَلَیۡہِ بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ ۚ فَاِذۡ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓئِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۳﴾

کیوں نہ لائے وہ اس بات پر چار شاہد پھر جب نہ لائے شاہد تو وہ لوگ اللہ کے یہاں وہی ہیں جھوٹے [۱۹]

Why did they (the accusers) not bring four witnesses to prove this? So, as they did not bring the witnesses, they are the liars in the sight of Allah.

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمۡ فِیۡ مَاۤ اَفَضۡتُمۡ فِیۡہِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۚۖ۱۴﴾

اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اسکی رحمت دنیا اور آخرت میں تو تم پر پڑ جاتی اس چرچا کرنے میں کوئی آفت بڑی [۲۰]

Had it not been for the grace of Allah upon you, and His mercy in this world and in the Hereafter, a severe punishment would have reached you for what you indulged in –

اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَ تَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵﴾

جب لینے لگے تم اس کو اپنی زبانوں پر اور بولنے لگے اپنے منہ سے جس چیز کی تم کو خبر نہیں اور تم سمجھتے ہو اسکو ہلکی بات اور یہ اللہ کے یہاں بہت بڑی بات ہے [۲۱]

when you were welcoming it with your tongues, and were saying with your mouths something of which you had no knowledge, and were taking it as a trivial matter, while in the sight of Allah it was grave.

وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۶﴾

اور کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا کہا ہوتا ہم کو نہیں لائق کہ منہ پر لائیں یہ بات اللہ تو پاک ہے یہ تو بڑا بہتان ہے [۲۲]

And why, when you heard of it, did you not say, “It is not for us to speak about this. Pure are You (O Allah). This is a terrible calumny.”

یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِہٖۤ اَبَدًا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۱۷﴾

اللہ تم کو سمجھاتا ہے کہ پھر نہ کرو ایسا کام کبھی اگر تم ایمان رکھتے ہو [۲۳]

Allah admonishes you never to repeat something like this, if you are believers.

وَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۱۸﴾

اور کھولتا ہے اللہ تمہارے واسطے پتے کی باتیں اور اللہ سب جانتا ہے حکمت والا ہے [۲۴]

Allah makes the signs clear to you, and Allah is All-Knowing, All-Wise.

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾

جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں [۲۵] انکے لئے عذاب ہے دردناک دنیا اور آخرت میں [۲۶] اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے [۲۷]

Surely, those who like that lewdness spreads among the believers, for them there is painful punishment in this world and the Hereafter. Allah knows, and you do not know.

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ وَ اَنَّ اللّٰہَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۲۰﴾

اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اسکی رحمت اور یہ کہ اللہ نرمی کرنے والا ہے مہربان تو کیا کچھ نہ ہوتا [۲۸]

Had it not been for the grace of Allah upon you, and His mercy, and that Allah is Very-Kind, Very-Merciful (you would have been destroyed).

[۱۴]واقعہ افک:

یہاں سے اس طوفان کا ذکر ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا پر اٹھایا گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۶ہجری میں غزوہ بنی المصطلق سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی ہمراہ تھیں، ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، وہ ہودہ میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں۔ جمال ہودے کو اونٹ پر باندھ دیتے۔ ایک منزل پر قافلہ ٹھہرا ہوا تھا، کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لئے قافلہ سے علیحدہ ہو کر جنگل کی طرف تشریف لے گئیں، وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ گیا۔ اس کی تلاش میں دیر لگ گئ یہاں پیچھے کوچ ہو گیا۔ جمال حسب عادت اونٹ پر ہودہ باندھنے آئے اور اس کے پردے پڑے رہنے سے گمان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اس میں تشریف رکھتی ہیں۔ اٹھاتے وقت بھی شبہ نہ ہوا کیونکہ ان کی عمر تھوڑی تھی اور بدن بہت ہلکا پھلا تھا۔ غرض جمالوں نے ہودہ باندھ کر اونٹ کو چلتا کر دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا واپس آئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ نہایت استقلال سے انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہاں سے اب جانا خلاف مصلحت ہے۔ جب آگے جا کر میں نہ ملوں گی تو یہیں تلاش کرنے آئیں گے۔ آخر وہیں قیام کیا، رات کا وقت تھا، نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ گئیں۔

حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ:

حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالی عنہ گرے پڑے کی خبر گیری کی غرض سے قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ سے رہا کرتے تھے، وہ اس موقع پر صبح کے وقت پہنچے۔ دیکھا کوئی آدمی پڑ اسوتا ہے۔ قریب آ کر پہچانا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں (کیونکہ پردہ کا حکم آنے سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا) دیکھ کر گھبرا گئے

اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ۔۱۵۶) پڑھا جس سے ان کی آنکھ کھل گئ۔ فورًا چہرہ چادر سے ڈھانک لیا۔ حضرت صفوان رضی اللہ تعالی عنہ نے اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھلا دیا۔ یہ اس پر پردہ کے ساتھ سوار ہو گئیں۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر دوپہر کے وقت قافلہ میں جا ملایا۔

عبداللہ بن اُبی کی شرارت:

عبداللہ بن اُبی بڑا خبیث بد باطن اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا، اسے ایک بات ہاتھ آ گئ اور بدبخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا۔ اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی (مثلاً مردوں میں سے حضرت حسان، حضرت مسطح اور عورتوں میں سے حضرت حمنہ بنت حجش) منافقین کے مغویانہ پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر اس قسم کے افسوسناک تذکرے کرنے لگے۔ عموماً مسلمانوں کو اور خود جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے واہیات تذکروں اور شہرتوں سے سخت صدمہ تھا۔ ایک مہینہ تک یہ ہی چرچا رہا حضور سنتے اور بغیر تحقیق کچھ نہ کہتے مگر دل میں خفا رہتے۔

ایک ماہ بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اس شہرت کی اطلاع ہوئی شدت غم سے بیتاب ہو گئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ شب و روز روتی تھیں۔ ایک منٹ کے لئے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اسی دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے اور گفتگوئیں ہوئیں جو صحیح بخاری میں مذکور ہیں اور پڑھنے کے قابل ہیں۔

آخر حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برأت میں خود حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۂ "نور” کی یہ

آیتیں اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ (النور۔۱۱) الخ سے دور تک نازل فرمائیں۔ جس پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فخر کیا کرتی تھیں اور بلاشبہ جتنا فخر کرتیں تھوڑا تھا۔

[۱۵]سازش کرنے والے تمہاری ہی جماعت کے لوگ ہیں:

یعنی طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتےاور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں ان میں سےچند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ انکی عیارانہ سازش کا شکار ہو گئے تاہم خدا کا احسان ہے کہ جمہور مسلمان ان کےجال میں نہیں پھنسے۔

[۱۶]مسلمانوں کی تسلی:

یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کےلئے ہے جنہیں اس واقعہ سےصدمہ پہنچا تھا بالخصوص عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کا گھرانہ کہ ظاہر ہے وہ سخت غمزدہ اور پریشان تھے۔ یعنی گو بظاہر یہ چرچا بہت مکروہ، رنجیدہ اور ناخوشگوار تھا۔ لیکن فی الحقیقت تمہارےلئے اس کی تہ میں بڑی بہتری چھپی ہوئی تھی۔ آخر اتنی مدت تک ایسےجگر خراش حملوں اور ایذاؤں پر صبر کرنا کیا خالی جا سکتا ہے۔ کیا یہ شرف تھوڑا ہے کہ خود حق تعالیٰ نے اپنے کلام میں تمہاری نزاہت و برأت اتاری۔ اور دشمنوں کو رسوا کیا اور قیامت تک کے لئے تمہارا ذکر خیر قرآن پڑھنے والوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ اور مسلمانوں کو پیغمبر علیہ السلام کی ازواج و اہل بیت کا حق پہچاننے کے لئے ایسا سبق دیا جو کبھی فراموش نہ ہو سکے۔ فللہ الحمد علیٰ ذلک۔

[۱۷]عبداللہ بن اُبی کیلئے عذاب عظیم:

یعنی جس شخص نے اس فتنہ میں جس قدر حصہ لیا اسی قدر گناہ سمیٹا اور سزا کا مستحق ہوا۔ مثلاً بعض خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ کرتے تھے بعض اظہار افسوس کے طرز میں، بعض چھیڑ کر مجلس میں چرچا اٹھا دیتے، اور آپ خود چپکے سنا کرتے۔ بعض سن کر تردد میں پڑ جاتے، بہت سے خاموش رہتے اور بہت سے سن کر جھٹلا دیتے۔ ان پچھلوں کو پسند فرمایا اور سب کو درجہ بدرجہ کم و بیش الزام دیا۔ اور بڑا بوجھ اٹھانے والا منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی تھا جیسا کہ روایات کثیرہ میں تصریح ہے۔ یہ ہی خبیث لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے خود دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس کے لئے آخرت میں بڑا عذاب تو ہے ہی، دنیا میں بھی ملعون خوب ذلیل و رسوا ہوا اور قیامت تک اسی ذلت و خواری سے یاد کیا جائے گا۔

[۱۸]بے ثبوت بہتان کی تصدیق:

مسلمان کو چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ حسن ظن رکھے۔ اور جب سنے کہ لوگ ایک نیک شخص پر یوں ہی رجمًا بالغیب بری تہمتیں لگاتے ہیں تو اپنے دل میں ایسے خیالات کو راہ نہ دے بلکہ انکو جھٹلائے۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی پیٹھ پیچھے بھائی مسلمان کی مدد کرے۔ اللہ پیٹھ پیچھے اس کی مدد کرے گا۔ بے تحقیق تہمتیں تراشنا ایمان سے بعید ہے۔ چاہئے کہ آدمی خود اپنی آبرو پر دوسروں کی آبرو کو قیاس کر لے۔

جیسا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ نے قصہ "افک” میں کیا ایک روز ان کی بیوی نے کہا کہ لوگ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نسبت ایسا کہتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جھوٹے ہیں۔ کیا ایسا کام تو کر سکتی ہے؟ بولی ہر گز نہیں۔ فرمایا پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا تجھ سے کہیں بڑھ کر پاک و صاف اور طاہر و مطہر ہیں، ان کی نسبت بے وجہ ایسا گمان کیوں کیا جائے۔

[۱۹]بدکاری کی تہمت لگا کر چار گواہ پیش نہ کرنا:

یعنی اللہ کےحکم اور اس کی شریعت کے موافق وہ لوگ جھوٹے قرار دیئے گئے ہیں جو کسی پر بدکاری کی تہمت لگا کر چار گواہ پیش نہ کر سکیں۔ اور بدون کافی ثبوت کے ایسی سنگین بات زبان سے بکتے پھریں۔

[۲۰]یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو پیغمبر کے طفیل دنیا کے عذابوں سے بچایا ہے۔ نہیں تو یہ بات قابل تھی عذاب کے۔ (موضح القرآن) نیز تم میں سے مخلصین کو توبہ کی توفیق دے کر خطا معاف کر دی ورنہ منافقین کی طرح وہ بھی قیامت کے دن عذاب عظیم میں گرفتار ہوتے (العیاذ باللہ)۔

[۲۱]بلا تحقیق بہتان کا چرچا جرم عظیم ہے:

یعنی عذاب عظیم کے مستحق کیوں نہ ہوتے جبکہ تم ایسی بے تحقیق اور ظاہر البطلان بات کو ایک دوسرے کی طرف چلتا کر رہے تھے۔ اور زبان سے وہ اٹکل پچو باتیں نکالتے تھے جن کی واقعیت کی تمہیں کچھ بھی خبر نہ تھی۔ پھر طرفہ یہ ہے کہ ایسی سخت بات کو (یعنی کسی محصنہ خصوصًا پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ اور مومنین کی روحانی والدہ کو متہم کرنا) جو اللہ کے نزدیک بہت بڑا سنگین جرم ہے، محض ایک ہلکی اور معمولی بات سمجھنا، یہ اصل جرم سے بھی بڑھ کر جرم تھا۔

[۲۲]مسلمانوں کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ بہتان عظیم ہے:

یعنی اول تو حسن ظن کا اقتضاء یہ تھا کہ دل میں بھی یہ خیال نہ گذرنے پائے جیسا کہ اوپر ارشاد ہوا۔ لیکن اگر شیطانی اغواء سے فرض کیجئے کسی دل میں کوئی برا وسوسہ گذرے تو پھر یہ جائز نہیں کہ ایسی ناپاک بات زبان پر لائی جائے۔ چاہئے کہ اس وقت مومن اپنی حیثیت اور دیانت کو ملحوظ رکھے اور صاف کہدے کہ ایسی بے سروپا بات کا زبان سے نکالنا مجھ کو زیب نہیں دیتا۔ اے اللہ! تو پاک ہے۔ کس طرح لوگ ایسی نامعقول بات منہ سے نکالتے ہیں۔ بھلا جس پاکباز خاتون کو تو نے سیدالانبیاء اور راس المتقین کی زوجیت کے لئے چنا، کیا وہ (معاذ اللہ) خود بے آبرو ہو کر پیغمبر کی آبرو کو بٹہ لگائے گی
(حاشا ہا ثم حاشاہا)
ہو نہ ہو دشمنوں نے ایک بے قصور پر بہتان باندھا ہے۔

[۲۳]آئندہ ایسا نہ کرنے کی نصیحت:

یعنی مومنین کو پوری طرح چوکس اور ہشیار رہنا چاہئے۔ بد باطن منافقین کے چکموں میں کبھی نہ آئیں۔ ہمیشہ پیغمبر علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت کی عظمت شان کو ملحوظ رکھیں۔

[۲۴]یعنی پتہ اس کا کہ یہ طوفان اٹھایا کس نے۔ معلوم ہوا کہ منافقین نے جو ہمیشہ دشمن تھے۔ اگلی آیت میں پتہ بتلا دیا۔
(کذا فی الموضح) عمومًا مفسرین نے آیات سے مراد احکام، نصائح، حدود اور قبول توبہ وغیرہ کے مضامین لئے ہیں۔ اس وقت صفات علم و حکمت کے ذکر سے یہ غرض ہو گی کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے مخلصین کی ندامت قلبی کا حال خوب جانتا ہے۔ اس لئے توبہ قبول کی اور چونکہ حکیم مطلق ہے اس لئے نہایت حکمت و دانائی کے ساتھ تمہاری سیاست کی گئ۔

[۲۵]بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا:
یعنی بدکاری پھیلے یا بدکاری کی خبریں پھیلیں۔ یہ چاہنے والے منافقین تھے۔ لیکن انکا تذکرہ کر کے مومنین کو بھی متنبہ فرمادیا کہ اگر فرض کرو کسی کے دل میں ایک بری بات کا خطرہ گذرا اور بے پروائی سے کوئی لفظ زبان سے بھی کہہ گذرا تو چاہئے کہ اب ایسی مہمل بات کا چرچا کرتا نہ پھرے۔ اگر خواہی نہ خواہی کسی مومن کی آبروریزی کرے گا تو خوب سمجھ لے کہ اس کی آبرو بھی محفوظ نہ رہے گی۔ حق تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ کما فی الحدیث احمد رحمہ اللہ۔

[۲۶]دنیا میں حد قذف، رسوائی اور قسم قسم کی سزائیں اور آخرت میں دوزخ کی سزا۔

[۲۷]یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو خدا خوب جانتا ہے گو تم نہ جانتے ہو۔ اور یہ بھی اُسی کےعلم میں ہے کہ کس کا جرم کتنا ہے اور کس کی کیا غرض ہے۔ (تنبیہ) حبِ شیوع فاحشہ، حسد و کینہ وغیرہ کی طرح اعمال قلبیہ میں سے ہے مراتب قصد میں سے نہیں۔ اس لئے اس پر ماخوذ ہونے میں اختلاف نہ ہو نا چاہئے۔ فتنبہ لہٗ۔

[۲۸]مسلمانوں پر اللہ کی رحمت اور فضل:
یعنی یہ طوفان تو ایسا اٹھا تھا کہ نہ معلوم کون کون اس کی نذر ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحمت اور شفقت و مہربانی سے تم میں سے تائبین کی توبہ کو قبول فرمایا اور بعض کو حد شرعی جاری کر کے پاک کیا اور جو زیادہ خبیث تھے ان کو ایک گونہ مہلت دی۔

شائع کردہ از سورة النور | تبصرہ کریں